لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کو بھی 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دینے کے عمل نے پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اور خود سیاسی جماعتوں کے آگے بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے کہ آخر کیوں رکن پارلیمنٹ بننے والے انتخابی عمل میں حصہ لینے کیلئے دیگر شرائط کے ساتھ اپنے اثاثوں ذرائع آمدن سمیت دیگر امور کے حوالہ سے درست معلومات فراہم نہیں کر پاتے جو ان کی اخلاقی سیاسی اور قانونی ذمہ داری ہے کیونکہ عوامی نمائندگی کے دعوے داروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کی شخصیت اور کردار صداقت اور امانت کے معیار پر پورا اترتے ہوں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے خواجہ آصف کے حوالہ سے دیئے جانے والے فیصلہ میں اس امر پر زور دیا ہے کہ سیاسی قوتوں کیلئے یہی مناسب ہو گا کہ وہ اپنے سیاسی تنازعات کے حل کیلئے سیاسی فورم ہی استعمال کریں، ملکی حالات اور سیاسی محاذ پر پیدا شدہ صورتحال سے ایک تاثر یہ عام ہو رہا ہے کہ سیاسی لیڈر شپ ایک دوسرے کو سیاسی اور انتخابی محاذ پر شکست سے دوچار کرنے گرانے اور اپنے اپنے مناصب سے ہٹانے کیلئے اب عدالتوں کا سہارا لے رہے ہیں عدالتوں نے تو فیصلہ قانون اور آئین اور انصاف کے مطابق کرنا ہوتا ہے لہذا ہر آنے والے دن میں عدالتوں پر پڑنے والا بوجھ خود عدالتوں پر دباؤ کا باعث بن رہا ہے جبکہ سیاسی معاملات پر ڈیڈ لاک کی کیفیت نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔
اس میں اب عام لوگ بھی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر قومی عوامی اور سیاسی معاملات پر فیصلے پاکستان کی عدالتوں کو ہی کرنا ہیں تو پھر خود حکومتیں اور پارلیمنٹ کے فورم کا کیا جواز ہے اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں سیاسی قوتوں کے درمیان تناؤ کشمکش محاذ آرائی اور الزام تراشی کی سطح اس نہج پر نہیں پہنچی تھی جہاں آج ہے اور اب جب حالات نئے انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں تو تب بھی یہ امکان ظاہر نہیں ہو رہا کہ انتخابات کے نتیجہ میں ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام قائم ہو پائے گا ایسا کیونکر ہے اور کون اس کے ذمہ دار ہیں اور معاملات کا سیاسی حل کیونکر نہیں نکل پاتا اور پارلیمنٹ اس سلسلہ میں کیوں ناکام ہے؟۔
جہاں تک ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی بات ہے تو یہ ایک محض خام خیالی رہ گئی ہے کہ ملک میں سیاسی ابتری میں کمی آئے کیونکہ مسلسل ایک جماعت کو مختلف فیصلوں کے ذریعے پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پارلیمنٹ اپنے حکمرانوں کی بری کارکردگی کا احتساب بھی کرتی اور خود کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی قابل عمل اور متفقہ قانون سازی کرتی۔ مگر پارلیمنٹ ناکام ہوئی سابق وزیراعظم کی فوج سے خاص قربت کی تاریخ دوبارہ دہرائی گئی اور پھر پاکستانی سیاست کے میدان وہ کچھ ہوا کہ الامان الحفیظ کی کیفیت طاری ہو گئی، ملک میں پہلے عدالت نے بدعنوانی کے مقدمات کو 184 کے تحت سنا اور پھر پاکستانی تاریخ میں منتخب وزیراعظم اقتدار سے باہر ہوا اور اب موجودہ فیصلے سے واضح ہو رہا ہے کہ سابق وزیراعظم کی جماعت بھی اقتدار سے دور کی جا رہی ہے۔
پاکستانی سیاست میں یہ حقیقی وقت ہے جب سیاسی جماعتوں کو اختلافات سے بالاتر ہو کر مل بیٹھ کر سیاست کے کچھ اصول مثیاق جمہوریت طرز پر دوبارہ ترتیب دینے چاہئیں سیاست کو بھی ایک مضبوط ادارہ بنانا چاہیے جہاں پارلیمنٹ خود احتساب بھی کرے اور جمہوریت کے تسلسل کو بھی یقینی بنائے وگرنہ جب کسی نے چاہا تو کوئی بھی اقتدار سے نکال باہر کر دیا جائے گا۔