لاہور: (تجریہ: حبیب اکرم) پاکستان مسلم لیگ ن کی ختم ہونے والی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے یکے بعد دیگرے تین دھرنوں کا مقابلہ کیا، ڈان لیکس سے پیدا ہونے والے بحران سے نکلی اور پاناما پیپرز جیسے مہلک ہتھیار سے زخمی ہوئی مگر دستور کے مطابق اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر کے ایک بار پھر عوام کی عدالت میں لوٹ گئی۔ پاکستان کے پچھلے پانچ سالوں کے دوران اٹھنے والے سیاسی طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اگرچہ اس حکومت نے بجلی کے بحران پر کچھ قابو پالیا، امن و امان کی صورتحال کو فوج کے ساتھ مل کر بہتر بنا لیا یا چین کی مدد سے سی پیک پرکام آگے بڑھایا ہے تو موجودہ حالات میں یہ سب کچھ اس کی اضافی کارکردگی ہی قرار پا سکتا ہے۔ 5 جون 2013 کو جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں اقتدار سنبھالا تو اس نے چار بنیادی دعوے کیے تھے، ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ، بجلی کا بحران ختم کرنا، امریکی ڈالر کے مقابلے پر پاکستانی روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر کو سنبھالنا اور جمود کی شکار معیشت کو متحرک کرنا۔
ان چار محاذوں پر کام کرنے کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑا۔ قرضے کے علاوہ اسے روپے کی قدر کو سہارا دینے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی سعودی امداد بھی میسر آگئی اور عالمی منڈی میں تیل و اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے کمی نے سہارا دیا۔ چین کی طرف سے سی پیک منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد کی وجہ سے جہاں بجلی کے منصوبوں پر کام شروع ہوگیا وہاں بڑے پیمانے پر بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے آغاز سے ملکی معیشت میں بھی حرکت پیدا ہوئی اور پاکستان کی معاشی نمو کا گراف ساڑھے تین فیصد سے اوپر اٹھنا شروع ہوگیا۔ دنیا بھر میں قابل قبول یہ اشاریہ اس وقت چھ فیصد کے قریب ہے جو ملکی معیشت کے روبہ صحت ہونے کا واضح ثبوت ہے۔عام حالات میں کسی بھی جمہوری ملک کی منتخب حکومت اگر اپنے منشور میں دیئے گئے چالیس فیصد وعدے بھی پورے کرلے تو دوبارہ منتخب ہونے کی امید قائم کر لیتی ہے ، لیکن پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی یہ تمام قابل ذکر کامیابیاں پاناما کیس کی گرد میں عام آدمی کی نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں۔
سیاسی محاذ پر مسلم لیگ ن کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب دوہزار تیرہ کے الیکشن کے چند دن بعد ہی عمران خان نے الیکشن کو متنازعہ قرار دے کر قومی اسمبلی کے چار حلقوں کے ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ کر دیا۔ دوہزار چودہ میں حکومت نے پہلا سال ہی مکمل کیا تھا کہ لاہور میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آگیا جس نے عمران خان کے مطالبے کو مزید ہوا دے دی۔ عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے ساتھ ساتھ اس سانحے کے خلاف بھی سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پہنچ کر دھرنا دے دیا۔ یہ دھرنا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ میں دیئے جانے والے طویل ترین دھرنوں میں سے ایک تھا۔ اس دھرنے نے مسلم لیگ ن کو پیپلزپارٹی کی مدد لینے کے لیے مجبور کردیا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے دھرنا دینے والوں کو کسی انتہائی اقدام سے باز رکھا۔ اسی دوران مخدوم جاوید ہاشمی نے عمران خان کو غیرجمہوری قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے کا الزام لگا کر چھوڑ دیا۔ پھر ڈاکٹر طاہرالقادری بھی دھرنا چھوڑ کر چلے گئے اور دسمبر دوہزار چودہ میں آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشتگردوں کے حملے کے بعد عمران خان نے بھی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کی تحقیقات کے لیے عدلیہ کی جانب سے ایک عدالتی کمیشن بنانے کی شرط پر اپنا دھرنا ختم کیا۔
دھرنے کے خاتمے کے ڈیڑھ سال کا عرصہ کچھ سکون سے گزارنے کے بعد حکومت کو پاناما دستاویزات کا سامنا کرنا پڑا ، جن میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر لندن کی کئی جائیدادیں سامنے آگئیں اور نواز شریف بیک فٹ پر چلے گئے۔ ان معاملات کو عمران خان نے قدرت کا ازخود نوٹس قرار دے کر اٹھایا اور حکومت پر پے درپے حملے شروع کردیئے ۔ آخرکار نواز شریف کو پاناما پیپرز میں دی گئی جائیدادوں کا حساب دینے کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے تفتیشی عمل سے گزرتے ہوئے عدالت کے ذریعے تاحیات نااہلی کا الزام اپنے سر لینا پڑا۔ اکتوبر دوہزار سولہ میں انگریزی روزنامہ ــ‘ڈان ’ میں چھپنے والی خبر سے ڈان لیکس کے سکینڈل نے حکومت اور فوج کے درمیان بے اعتمادی کے بیج بو دیئے اور روز بروز بڑھتی دوریوں کے نتیجے میں حکومت کمزور ہوتی چلی گئی۔ جب عدالت نے پاناما کیس کی سماعت شروع کی تو اس سے پہلے چھ ماہ کے دوران حکومت عملی طور پر معطل ہوچکی تھی ، اور اس کے بعد کل تک کی باقی ماندہ مدت شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کے ذریعے صرف اس لیے پوری ہوگئی کہ نواز شریف کو ایوانِ وزیراعظم سے نکالنے کے بعد ہر سیاسی جماعت پاکستان میں قبل ازوقت الیکشن کے بجائے بروقت الیکشن کی ضرورت کی قائل تھی۔ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے یہ دور اتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔ وزیراعظم کے طور پر میاں نواز شریف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو رخصت کیا اور جنرل راحیل شریف کو ان کی جگہ سپہ سالار مقرر کیا۔
جون دوہزار چودہ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے ساتھ ہی جنرل راحیل شریف ایک نڈر سپاہی کے طور پر ابھرنے لگے ، کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن نے ان کی شخصیت مزید نکھاری اور پھر بلوچستان میں امن و امان کی بہتری سے وہ ایک نجات دہندہ سمجھے جانے لگے ۔ اپنے اس غیر معمولی شخصی تاثر کی بنیاد پر وہ سیاسی حکومت کے مقابلے میں توازن پیدا کرنے والا عنصر بن گئے اورحکومت کے لیے ان کی کہی ہوئی بات کو ٹالنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ انہی کے دور میں ڈان لیکس کے معاملے پر فوج نے اتنی مضبوط پوزیشن لے لی کہ ان کی موجودگی میں حکومت کو اپنے وزیراطلاعات پرویز رشید اور ان کے جانے کے بعد وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی کی قربانی دینا پڑی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کواپنے دورِ حکومت میں عدلیہ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہا۔ ابتدا میں چیف جسٹس افتخار چودھری نے حکومتی اختیارات پر قدغن لگائی اور اس کے بعد سیاسی حالات کی وجہ سے ن لیگ کی حکومت مسلسل عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی اور آخر میں نواز شریف کو عدالتی فیصلوں کی وجہ سے پہلے وزارت عظمٰی اور پھر اپنی پارٹی کی صدارت بھی چھوڑنا پڑی۔ عمران خان کے پے درپے حملوں، سول ملٹری تعلقات میں تناؤ اورمتحرک عدلیہ کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حکومت مسلسل دباؤ میں رہی۔ اس دباؤ کے باوجود ملک میں موٹرویز کی تعمیر، سی پیک کے منصوبوں میں سے کئی کی تکمیل، بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی اور امن و مان کی بہتری جیسے کاموں کی وجہ سے یہ جماعت آج بھی اس قابل ہے کہ الیکشن میں اپنے ‘‘ووٹ کو عزت دو’’ کے بیانیے اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے آئندہ الیکشن میں بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔اب آئندہ الیکشن میں ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ ن لیگ اپنے بیانیے اور کاموں کے امتزاج سے کتنی عوامی حمایت حاصل کرسکتی ہے ۔