کراچی: ( روزنامہ دنیا) سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ مجھے پاکستان واپسی کے بعد سیکورٹی کی مکمل گارنٹی نہیں دی گئی اس لیے میں نے واپسی ملتوی کر دی، دنیا نیوز کے پروگرام‘‘ آن دی فرنٹ’’ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے میری دو ملاقاتیں ہوئیں، پہلی ملاقات بے نظیر کی تدفین سے پہلے ہوئی، پہلی ملاقات میں تو زرداری کا میرے بارے میں بڑا مثبت رویہ تھا اور وہ اصرار کررہے تھے کہ میں پریزیڈنسی نہ چھوڑوں، لیکن دوسری ملاقات میں انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا تھا، چنانچہ میں نے اپنی انا کو نظر انداز کر کے آصف زرداری کیلیے ایوان صدر خالی کر دیا۔
پرویز مشرف نے کہا کہ میرا کسی آرمی چیف سے اب ذاتی یا بذریعہ ٹیلی فون کوئی رابطہ نہیں ہے، کیونکہ فوج میں جو نظام چل رہا ہے میں اسے کسی صورت میں متاثر نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کے موقع پر جو لاہور ڈیکلیریشن جاری ہوا اس کے مسودے میں مسئلہ کشمیر کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں تھا، تاہم میرے اصرار پر اس وقت کے وزیر خارجہ نے لاہور ڈکلریشن میں مسئلہ کشمیر کا رسمی سا ذکر شامل کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق پرویز مشرف نے کہا آئندہ ماہ ہونے والے الیکشن میں اپنی پارٹی کو منظم کرنے کیلیے پاکستان جانا چاہتا تھا، لیکن مجھے کمرہ عدالت تک تو سکیورٹی دینے کی بات کی گئی لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی جارہی کہ اس کے بعد کیا ہوگا ؟ ایسی صورت تو میری پارٹی بھی مخمصے میں پھنس جائے گی اس لئے فی الحال میں نے پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا بہادری اور بے وقوفی میں بڑا فرق ہوتا ہے، لہٰذا ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھنے والے مجھے بہادری کا سبق نہ پڑھائیں، میری پہلی ترجیح یہ ہے کہ میں اپنے گھر اور ا پنے ماحول میں واپس جانا چاہتا ہوں، مجھے بھی پاکستان واپس جانے کی اجازت ملنی چاہیئے۔
اعلان لاہور کے بارے میں پرویز مشرف نے کہا کہ اس موقع پر ہونے والی پاک بھارت وزرائے اعظم کی میٹنگ میں اعلامیہ لاہور کا جو مسودہ شرکا میں تقسیم کیا گیا تھا اس میں کشمیر کا کاف تک موجود نہیں تھا، میں اس میٹنگ میں بحیثیت آرمی چیف، آئی ایس آئی کے ڈی جی کے سا تھ شریک تھا - جب میں نے نواز شریف کی توجہ دلائی کہ کشمیر تو ہماری شہ رگ ہے اس کا تذکرہ ضرور ،ہونا چاہیئے ، تو اس پر نواز شریف نے اپنے وزیر خارجہ سے کہا کہ ‘‘‘ ڈالو بھئی ڈالو’’۔
پرویز مشرف نے مزید بتایا کہ وزیر خارجہ نے مجھ سے کہا کہ آپ براہ کرم میری رہنمائی کریں کہ کشمیر کا تذکرہ کس انداز میں ہونا چاہیئے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وزیر اعظم نواز شریف جو بیان پڑھنے والے ہیں پہلے تو اس میں مسئلہ کشمیر کا واضح انداز میں تذکرہ ہونا چاہیئے، چناچہ وزیر خارجہ نے مجھے وہ مسودہ دکھایا جو نواز شریف کو پڑھنا تھا۔ آپ یقین جانئے میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ پورے مسودہ میں کشمیر یا مسئلہ کشمیر کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں تھا۔ پرویز مشرف نے مزید کہا کہ بہرحال میرے اصرار پر وزیر خارجہ نے خود اپنے قلم سے نواز شریف کے بیان میں مسئلہ کشمیر کا اضافہ کیا، اس کے نتیجے میں لاہور ڈکلیریشن میں بھی تنازع کشمیر کا رسمی سا ذکر آگیا۔
کامران شاہد کے ایک سوال کے جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ دوستی بس سروس سے واجپائی کی لاہور آمد کے موقع پر نواز شریف سے میرا کوئی اختلاف نہیں ہوا تھا ، بس بات اتنی سی تھی کہ نواز شریف واجپائی کا خیرمقدم واگہ باڈر پر کرنا چاہتے تھے جہاں عام دنوں میں بڑی بد نظمی رہتی ہے ، اسی لیے سیکیورٹی کے پیش نظر میں نے لاہور کے گورنر ہاؤس میں سابق بھارتی ویزیراعظم کا خیر مقدم کیا، انہیں سیلوٹ پیش کیا اور ان سے باقاعدہ مصافحہ بھی کیا۔