تبادلوں کا بہت بڑا گڑبڑ گھوٹالہ

Last Updated On 22 June,2018 09:26 am

لاہور: ( روزنامہ دنیا) افسروں کے تقرر و تبادلے کس فارمولے کے تحت کئے جا رہے ہیں ؟ یہ فارمولا کس نے بنایا ؟ نگران حکومت یا سابق حکمران نے ؟، کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ پنجاب میں تحصیلدار، ایس ایچ او ، ڈی ایس پیز، پٹواری ، اسسٹنٹ کمشنرز تاحال تبدیل نہیں کئے گئے جو کہ انتخابات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، پنجاب کی 56 کمپنیوں میں تعینات چیف ایگزیکٹو آفیسرز سمیت دیگر سرکاری ملازمین میں سے کسی بھی افسر کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔ شہباز شریف کے 80 فیصد قریبی افسروں کو اہم عہدے مل گئے جبکہ بعض کو مختلف سکینڈلز سے بچانے کے لئے وفاق کو بھجوا دیا گیا ہے۔ ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب بریگیڈئیر ریٹائرڈ مظفر علی رانجھا، محتسب اعلیٰ پنجاب نجم سعید، ٹرانسپورٹ کے سبطین فضل حلیم اور ان کی ٹیم کے دیگر افسران، سیکرٹری قانون ابوالحسن نجمی، سی ایم آفس میں تعینات ایڈیشنل سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹریز تاحال اپنے عہدوں پر تعینات ہیں، ایک فیصد سے بھی کم افسروں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے بھجوایا گیا۔

بیوروکریسی میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ کھائو پیو، موج کرو اور اگر انکوائری لگے یا کوئی ایکشن ہو تو پھر ہمدردی لیکر سائیڈ پر ہو جاؤ یا پھر سابق عہدیداروں سے تعاون مانگو، یہی صورتحال اب صوبوں میں ہونیوالے تبادلوں میں دیکھنے میں آئی ہے۔ پنجاب میں اگر نظر دوڑائی جائے تو کئی افسر ایسے رہے جو کہ شہباز شریف کے بہت ہی قریبی تھے جو ابھی بھی پنجاب میں ہی تعینات ہیں اور انہوں نے مختلف اداروں سے رابطے کر کے نگران دور میں بھی اہم عہدے حاصل کر لئے ہیں، لیکن یہ بات تبھی دیکھنے میں آئی ہے کہ پنجاب میں زیادہ تر کیپٹن ریٹائرڈ ہی اہم عہدے لینے میں کامیاب ہو ئے ہیں، ان میں کیپٹن (ر) نسیم نواز ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ تعینات ہوئے، پہلے یہ ہائر ایجوکیشن، ٹرانسپورٹ سمیت کئی اہم سیکرٹری کے عہدوں پر تعینات رہے، کیپٹن (ر) سیف انجم جو سیکرٹری ماحولیات تھے، سیکرٹری آبپاشی، سپیشل سیکرٹری داخلہ، ڈی سی او اوکاڑہ سمیت کئی اہم عہدوں پر تعینات رہے۔ شہبازشریف کے بہت ہی قریبی افسر تھے، ان کو کمشنر راولپنڈی تعینات کر دیا گیا ہے، کیپٹن (ر) محمد محمود پہلے نندی پور پراجیکٹ میں تعینات رہے، پراجیکٹ کو نقصان پہنچایا، پھر سیکرٹری زراعت تعینات ہوئے ، اب انہیں سیکرٹری لائیو سٹاک تعینات کر دیا گیا، کیپٹن (ر) اسد اللہ سیکرٹری آبپاشی تعینات رہے، اب سیکرٹری ہائوسنگ اربن ڈویلپمنٹ تعینات کر دیا گیا، کیپٹن (ر) ثاقب ظفر کمشنر بہاولپور تعینات رہے ، اب انہیں سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئراینڈ میڈیکل ایجوکیشن تعینات کر دیا گیا، کیپٹن (ر) محمد ظفر اقبال ممبر پنجاب ریونیو اتھارٹی تھے، انہیں کمشنر سرگودھا تعینات کر دیا گیا، کیپٹن (ر) محمد آصف کمشنر گوجرانوالہ تعینات تھے۔

کیپٹن (ر) محمد انوار الحق ڈی جی پی ایچ اے راولپنڈی تھے انہیں ڈپٹی کمشنر لاہور تعینات کر دیا گیا ہے، فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) عمران قریشی ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ فنانس راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ڈپٹی کمشنر اٹک تعینات کر دیا گیا، کیپٹن (ر) خرم آغا جو کہ شہباز شریف کی آنکھ کا تارا سمجھے جاتے تھے اور ہر وہ اقدام جو پارٹی کے مفاد میں تھا، ان اجلاسوں میں خرم آغا موجود ہوتے تھے، یہ سیکرٹری پبلک ہیلتھ تھے ،ان کے ماتحت صاف پانی کی 2 کمپنیاں تھیں اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی بھی انہیں کے ماتحت تھی، انہوں نے تینوں کمپنیوں میں تمام غیر قانونی اقدامات کو سپورٹ کیا اور ان کے سامنے آشیانہ ہائوسنگ سکیم سکینڈل بھی سامنے آیا، صاف پانی کے لئے اربوں روپے ضائع کئے لیکن ایک بوند پانی بھی نہ ملا، شہباز شریف ٹھیکے دلوانے سے متعلق جب بھی کوئی کمیٹی بناتے تو اس میں ان کو بھی ٹاسک سونپا جاتا رہا ، لیکن اب انہوں نے مختلف اداروں کے افسروں سے رابطے کئے اور اب نگران حکومت میں انہیں سیکرٹری ٹو نگران وزیراعلیٰ تعینات کر دیا گیا ہے، اسی طرح کیپٹن (ر)محمد عثمان جو کہ سابق ڈی سی او لاہور رہے ، انہیں نوازتے ہوئے 14 لاکھ 65 ہزار روپے ماہانہ اور 65 لاکھ روپے کی فارچونر گاڑی سمیت دیگر کئی مراعات بھی دی گئیں جو تاحال عہدے پر برقرار ہیں۔

اسی طرح سیکرٹری آئی اینڈ سی سائرہ اسلم جو کہ شہبازشریف کی سپیشل ٹیم میں شامل تھیں، جن کو ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے صرف وہ کام کریں گی جو کہ شہبازشریف کا حکم ہو گا اور ایسے غیر قانونی اقدامات کرنے پر سابق سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اسلم کمبوہ نے انہیں کام سے بھی روک دیا تھا، لیکن شہباز شریف نے پھر انہیں سیکرٹری آئی اینڈ سی تعینات کیا اور پھر پنجاب کی 56 کمپنیوں سے متعلق نیب کو ریکارڈ فراہم نہ کرنے ا ور غلط رپورٹس کی تیاری کی ذمہ داری ان کو دی گئی تھی جو اب بھی اپنے عہدے پر براجمان ہیں، ان کا بھی وفاق میں تبادلہ نہیں کیا گیا ، اسی طرح اربن ڈویلپمنٹ کمپنی میں تعینات ناصر جاوید، ہیلتھ کمپنی کے ظہیر عباس، ہیلتھ فیسلٹی مینجمنٹ کمپنی کے محمد علی عامر، چیئرمین پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کمپنی ڈاکٹر جنید یوسف جو کہ کامرس سروسز اور بورڈ آف ریونیو کے ممبر بھی ہیں، ان کابھی تبادلہ نہیں کیا گیا، یہ بھی شہباز شریف کے بہت ہی قریبی افسر ہیں، سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ، اکائونٹس سروس کے رانا عبید ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ، کئی کارپوریٹ فنانس یونٹس بنائے گئے ہیں جن میں 4 لاکھ تا 7 لاکھ روپے تک تنخواہیں دی گئی ہیں ان کو بھی نہیں ہٹایا گیا جن کا کام شہباز شریف کے سب غیر قانونی اقدامات کو کور کرنا تھا، انہوں نے ہی کمپنیوں کے معاملات کو کور کیا اور معاملات کو چھپانا شروع کر دیا۔ ان میں کسی کو بھی نہیں ہٹایا گیا ، اسی طرح ندیم ارشاد کیانی پہلے بھی اپنی مرضی سے پنجاب میں تعیناتی لیتے رہے، پھر لوکل گورنمنٹ میں تعینات ہوئے اور اب کمشنر ملتان تعینات ہو گئے۔

امبرین رضا جو کہ پہلے سیکرٹری پاپولیشن، سپیشل ایجوکیشن تعینات رہیں اب محکمہ تعلیم میں سیکرٹری تعینات ہو گئیں،مومن آغا جو کہ سیکرٹری آئی اینڈ سی ، سیکرٹری اطلاعات پھر کمشنر فیصل آباد رہیں، اب انہیں پنجاب میں ہی سیکرٹری معدنیات تعینات کر دیا گیا ، اسی طرح شاہد اقبال جو کہ شہبازشریف کے پی ایس او تھے انہیں ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات ہی تعینات کر رکھا ہے ، محکمہ اطلاعات اور محکمہ صحت میں کئی افراد جو کہ ڈیپوٹیشن پر یہاں پر تعینات ہیں، ان کو وفاق نہیں بھجوایا گیا ، یہ وہ افراد ہیں جو کہ شہباز ٹیم کہلاتے تھے اور انہوں نے مکمل ٹیمیں بنا رکھی ہیں اور تاحال ابھی بھی سابق حکومتی عہدیدار کیساتھ ہی کام کر رہے ہیں اور کئی افسر کئی اہم معاملات سے انہیں لمحہ بہ لمحہ آگاہ بھی کر رہے ہیں، محمد جہانزیب خان جس کو ناْقص کارکردگی اور مبینہ بے ضابطگیوں کے الزامات پر ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا، شریف ٹیم کا اہم حصہ ہونے پر بعد میں انہیں ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ، پھر ایم ڈی پیپرا تعینات کیا گیا ، اب انہیں ڈپٹی کمشنر جہلم تعینات کر دیا گیا ہے، محمد مجتبیٰ پراچہ جو کہ سیکرٹری انڈسٹریز رہے، انہیں کمشنر لاہور تعینات کر دیا گیا جبکہ یہ بھی شہبازشریف کے بہت ہی قریبی افسر تھے، انہوں نے کئی کمپنیوں کو انڈسٹریز میں رہ کر رجسٹرڈ کیا ہے، محمد ہارون رفیق سیکرٹری فاریسٹ تھے اب انہیں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ٹرانسپورٹ تعینات کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ شہریار سلطان شہبازشریف کی ٹیم کے اہم حصہ تھے ، یہ پہلے سیکرٹری کوآپریٹو رہے ہیں، اب انہیں ایڈیشنل چیف سیکرٹری مواصلات تعینات کر دیا گیا ہے، نگران حکومت میں اسی طرح پولیس میں بھی ایسے افراد جو کہ شہباز ٹیم کا حصہ رہے ہیں، ان کو پھر اہم عہدوں سے نواز دیا گیا ہے، یہاں تک کے بعض پولیس افسروں کو ایک ضلع سے ساتھ والے دوسرے اضلاع میں تعینات کر دیا گیا، جن پر کئی سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔ جبکہ جن افراد کی خدمات وفاق ٹرانسفر کی گئی ہیں ،وہ بھی فارمولے کے تحت یعنی ان میں سے کئی افراد سے پوچھ کر ہی کی گئی ہیں اور یہ وفاق میں اہم عہدے حاصل کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور اپنے بیچ میٹس اور کئی قریبی دوستوں سے سفارشوں کے تحت اہم عہدے حاصل کر لیں گے ، بعض نے تو پہلے سے ہی عہدے فائنل کر لئے ہیں کہ کس نے کہاں اور کب تعینات ہونا ہے تاہم جو وفاق گئے ہیں، ان میں زیادہ تر نیب میں پنجاب کمپنیز سکینڈل میں پیشیاں بھگت چکے ہیں اور کمپنی سکینڈل میں کسی نہ کسی جگہ مبینہ طورپر ملوث ہونے کے بھی الزامات سامنے آرہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں وفاق ٹرانسفر کر دیا گیا۔

نجم شاہ، علی جان، عبداللہ خان سنبل، جہانزیب خان سمیت کئی افراد کی ایک فہرست ہے جو نیب کے شکنجے میں آنے والے ہیں، اسی طرح سابق سی سی پی او امین وینس جن کے خلاف بھتہ خوری کا مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی تھی وہ معاملہ ہی ٹھپ کر دیا گیا اور اب اس کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسی طرح پولیس افسران جن کے خلاف کئی الزامات ہیں ان کو اب دبایا جا رہا ہے، اس وقت کئی اہم تبادلے صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہونا بہت ہی ضروری ہیں، خیبرپختونخوا میں بھی تبادلے تو ہوئے ہیں لیکن صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ تعینات کر دیا گیا ہے ، کسی کو بھی ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں تبدیل نہیں کیا گیا اور اس سے شفافیت اور غیر جانبداری کے معاملات پر سوالیہ نشان کھڑے ہو چکے ہیں۔
 

Advertisement