متحدہ اپوزیشن متحدرہ سکے گی ؟

Last Updated On 16 August,2018 10:01 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) تحریک انصاف کی متوقع حکومت کے خلاف وزارت عظمیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں پر مختلف اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار آنے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات کی خبریں آ رہی ہیں، ایک دوسرے کی لیڈر شپ پر تحفظات کے باوجود مشترکہ امیدواروں کو ووٹ تو دیئے جا رہے ہیں لیکن اختلافات کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ دیکھنا پڑے گا کہ متحدہ اپوزیشن کب تک متحد رہے گی۔ ایوانوں کے اندر اور باہر فرینڈلی اپوزیشن کون ہوگا اور اصلی اپوزیشن کون، حکومت اپوزیشن کا دباؤ اور خطرہ محسوس کر سکے گی؟۔ آنے والے وقت میں جمہوری سسٹم مستحکم اور مضبوط ہوگا یا انتشار، خلفشار اور عدم استحکام ہی ہمارا مقدر بنے گا۔

بنیادی طور پر متحدہ اپوزیشن کے ہنگامی بنیادوں پر قیام کا مقصد تو 25 جولائی کی رات انتخابی نتائج کیلئے بنائے گئے سسٹم کی خرابی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت تھی جس پر رد عمل کا اظہار صرف مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہی نہیں بلکہ بعد ازاں خود تحریک انصاف کے امیدواروں نے بھی کیا اور بہترین پولنگ ڈے کے بعد نتائج کی فراہمی کے عمل نے پورے پاکستان میں نتائج کو کنفیوژ کر کے رکھ دیا جس کے نتیجہ میں جیتنے والا بھی پریشان اور ہارنے والا بھی پریشان دیکھا گیا۔ اس سارے عمل کے نتیجہ میں دو سیاسی قوتیں مل بیٹھنے کیلئے تیار ہو گئیں جو ایک دوسرے کا نام نہیں سنتی تھیں۔ اب اس صورتحال میں اپوزیشن اتحاد کا مقصد اور مستقبل کیا ہے ؟ خصوصاً جب پیپلز پارٹی کی قیادت نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ہے کہ مسلم لیگ نواز اپنا وزیراعظم کا امیدوار شہباز شریف بدل لے تو پھر اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار سمجھتے ہوئے ووٹ دیدے گی مگر یہ ساری صورتحال اس میٹنگ میں ترتیب دیئے جانے والے لائحہ عمل کے بالکل برعکس ہے جس میں اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھ کر فیصلہ کر چکی ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کا امیدوار ایم ایم اے کا سپیکر کا امیدوار پیپلز پارٹی کا اور ن لیگ کا امیدوار ہی وزیراعظم کا مقابلہ لڑے گا۔

اصولی طور پر تو یہ صورتحال اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی کھلی بے اصولی سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ تو کیا پھر اس صورتحال میں بننے والی اپوزیشن پیپلز پارٹی کے اس تضاد سے بے اثر اور بے معنی ہو جائیگی ؟ ایسا کچھ ہوا تو پھر لازمی طور پر ن لیگ حقیقی اپوزیشن کا کردار خود سنبھالے گی اور پیپلز پارٹی اپنے لئے دوبارہ فرینڈلی اپوزیشن کا نام چنے گی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کو اس بے ضرر اپوزیشن اور ٹھنڈی حکمتِ عملی سے خاصا نقصان ہو چکا ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی نے ن لیگ کیساتھ قومی ایشوز پر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھایا جس سے پیپلز پارٹی کا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صفایا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کا پرانا جیالا آصف زرداری کے کرپٹ تاثر اور پیپلز پارٹی کی بے عملی سے مایوس ہو کر متبادل عمران خان کی طرف کوچ کر گیا مگر پیپلز پارٹی اس کے باوجود ڈرائنگ روم کی سیاست سے باز نہ آئی اور مزید نقصان اٹھایا اور اب پنجاب 2013 سے پیپلز پارٹی کیلئے نوگو ایریا بن چکا ہے۔

پیپلز پارٹی کا اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب پاناما پر حقیقی اپوزیشن کا کردار تو عمران خان نبھاتے رہے مگر خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کی پارلیمانی قیادت نواز شریف کی بی ٹیم بنی رہی اور محض میڈیا ٹاک شوز میں واویلا مچاتی رہی یا الٹا عمران خان کے عدالت جانے کا تمسخر اڑاتی رہی مگر جب پیپلز پارٹی کو ہوش آیا تو سب کچھ لٹ چکا تھا اور حالت یہ ہے کہ سندھ کے سوا یہ جماعت پورے پاکستان سے آؤٹ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنے آگے لگا کر پھر وہی کردار ادا کر رہی ہے جو خورشید شاہ ، نواز شریف اور اسحاق ڈار سے نبھاتے رہے۔ پیپلز پارٹی اپنے اس دو رخے اور اقتدار پرست رویے کی وجہ سے خاصی حد تک ایم کیو ایم سے ملتی جلتی ہے جو اقتدار کے بغیر ایک مرجھائے ہوئے پھول کی مانند ہے۔ آصف زرداری شاید مفاہمت کے ایسے خوگرہو چکے ہیں اور اس حقیقت کو بھول بیٹھے ہیں کہ اپوزیشن تو تندیء بادِ مخالف ہوتی ہے جو اپوزیشن جماعتوں کو بہت آگے لے جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اب اصل پوزیشن یہی رہے گی کیونکہ اب آصف زرداری پارلیمان میں آ چکے ہیں لہٰذا سیاست وہی روایتی اقتدار کے ارد گرد گھومے گی اور بلاول بھٹو کا پارلیمانی کیریئر بھی آصف زرداری کی گومگو کی کیفیت سے خاصا خراب ہوگا۔ اس سیاست کے انداز سے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور خود بلاول دوسری بار آصف زرداری کا نشانہ بننے والے ہیں۔

آصف زرداری کی مجبوریاں بہت ہیں سندھ ان کا ہوم گراؤنڈ ہے اور اس پاور سینٹر میں اقتدار بھی ضروری ہے اور کرپشن الزامات کا بوجھ بھی ساتھ اٹھانا ہے تو ن لیگ اپنا راستہ خود متعین کرے وگرنہ شہباز شریف اور ان کی پارلیمانی پارٹی مزید بے اثر ہو جائیگی۔ عددی اعتبار سے بھی ن لیگ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے تو اسے چاہئے اب اپوزیشن کی قیادت کی کنجی اپنے پاس رکھے اور اپوزیشن کو خود فرنٹ سے لیڈ کرے ۔ خصوصاً پنجاب میں ن لیگ کی بہتر اپوزیشن اسے وفاق میں بھی بہتر پوزیشن پر لے جائیگی مگر اس سب کیلئے ضروری ہے شہباز شریف ایک بدلے ہوئے سیاستدان ثابت ہوں۔ اب یہ آزمائشوں میں گھری ہوئی جماعت کے وارث ہیں لہٰذا ثابت قدمی ان کی جماعت اور ان کے بطور قائد قد کاٹھ میں اضافہ کرے گی۔