لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کا اپنی کابینہ کے سینئر اراکین کے ہمراہ جنرل ہیڈ کوارٹر کا دورہ ملک کے اندرونی و بیرونی حالات، سکیورٹی کے معاملات اور بعض اہم ممالک کے وزرائے خارجہ کے ممکنہ دورہ پاکستان کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے ذریعہ دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جانا مقصود ہے کہ پاکستان کی منتخب قیادت اور سکیورٹی کے ذمہ داران ملکی سلامتی، مفادات اور داخلی و خارجہ استحکام کے حوالہ سے ایک پیچ پر ہیں اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔
پاکستان کے فوجی ہیڈ کوارٹر پر پاکستان کی سویلین لیڈر شپ کا غیر معمولی دورہ اس حوالہ سے بھی اہم ہے کہ آنے والے چند روز میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ فوجی ذمہ داران، چینی وزیر خارجہ سمیت متعدد ممالک کے ذمہ داران پاکستان آرہے ہیں اور پاکستان کے امریکہ، بھارت، ایران، سعودی عرب سمیت اہم ممالک سے تعلقات اور معاملات پر مشاورتی عمل کے ذریعہ طے کیا جانا ہے کہ پاکستان زیادہ امن اور ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جذبہ خیر سگالی کے ساتھ قومی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اطلاعات کے مطابق جی ایچ کیو کے اس دورے میں نئی منتخب قیادت کو اندرونی و بیرونی طور پر سکیورٹی کے معاملات، دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سکیورٹی اداروں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات خصوصاً مشرقی اور مغربی بارڈر پر پیدا شدہ صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا۔
موجودہ دورے کے تناظر میں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ بیرونی محاذ خصوصاً پاکستان کے اردگرد کے حالات میں پاکستان کی حکمت عملی میں سکیورٹی اور سنجیدگی طاری کرنا لازم ہے اور ماضی میں نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ بھارت، افغانستان کے حوالے سے منتخب حکومت اور سکیورٹی ذمہ داران کے حوالے سے یکسوئی کا فقدان رہا جس کے اثرات خود پاکستان کے حوالے سے اچھے نہیں رہے لہٰذا ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ پاکستان میں اپنے خارجہ حالات میں ایسی حکمت عملی کا تعین ہو جس سے پاکستان کے مفادات کو یقینی بنایا جاسکے گو کہ اس سے پہلے منتخب وزیراعظم جی ایچ کیو کا دورہ کرتے رہے ہیں اور ان کے ہمراہ ڈیفنس کے وزیر اور ذمہ داران ہوتے تھے لیکن مذکورہ دورہ کے دوران وزیر خارجہ ، وزیر خزانہ کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک طرف جہاں خارجہ ایشوز کے حوالے سے یکسوئی پیدا ہوگی ۔ وہاں فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت دیگر سکیورٹی معاملات میں ضروریات اور انہیں ممکن وسائل کی فراہمی اور خصوصاً پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالے سے بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہوگا اور پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کے ساتھ فوج کی ضروریات کا بھی جائزہ لیا گیا ہوگا۔
منتخب قیادت کے دورہ جی ایچ کیو کو اس حوالے سے بھی اہم قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ صرف وزیراعظم عمران خان کا دورہ ہی نہیں بلکہ اس میں سینئر وزرا کی موجودگی کو عملاً اسے نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس قرار دیا جاسکتا ہے جس میں ملکی سکیورٹی کے معاملات پر ہونے والی بریفنگ کے پیش نظر منتخب حکومت کو حالات، معاملات اور بارڈرز کی صورتحال کا بھی صحیح ادراک ہوگیا ہوگا۔ دورہ کی ٹائمنگ کو اہم قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ آج ضرورت اس امر کی تھی کہ بیرونی محاذ پر یہ پیغام جانا چاہئے کہ قومی بقا و سلامتی کے معاملات اور مفادات پر پاکستان میں کوئی دو آرا نہیں اور منتخب اور عسکری قیادت چیلنجز سے نمٹنے اور آگے کی طرف چلنے کے لئے ایک ہی موقف پر ہے اور ایک ہی ذہن سے سوچتی ہے۔ کاش منتخب حکومت اس طرح کے جذبہ کا اظہار اپنے سیاسی مخالفین یا پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاسی قوتوں کے حوالے سے بھی کرے اور ان پر واضح کرے کہ قومی بقا سلامتی ملکی مفادات اور سکیورٹی کے معاملات پر ہمیں قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے اور اس حوالے سے پیش رفت منتخب ایوان کے اندر ہونی چاہئے کیونکہ پارلیمنٹ کے ذریعہ دنیا کو جانے والا یکجہتی کا پیغام پاکستان کی طاقت کے مرکز کے دورہ سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز ہوگا ۔ لیکن اس کے لئے منتخب وزیراعظم کو دل بڑاکرنا ہوگا اور اپنے سیاسی مفادات کے حوالے سے ایک ایک قدم پیچھے آنا پڑے گا جس سے یقیناً ملک کے اندر ایسی فضا پیدا کی جاسکتی ہے جس کے نتیجہ میں ملک میں اقتصادی ، سیاسی، انتظامی استحکام بھی قائم ہوگا اور پاکستان کے دفاع کو بھی ہر حوالہ سے ناقابل تسخیر بناتے ہوئے بیرونی محاذ پر اپنے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
یقیناً اس غیر معمولی پیش رفت سے پاکستان کے اندر سکیورٹی کے حوالے سے اطمینان کی لہر آئے گی البتہ پاکستان کے دشمن بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کے اندر قومی ایشوز خصوصاً سکیورٹی کے معاملات پر سنجیدگی اور یکسوئی ہو کیونکہ اس کا اصل نقصان انہیں ہوگا۔ منتخب حکومت کے دورہ جی ایچ کو کے حوالے سے اطلاعات یہی ہیں کہ مسلح افواج نے اپنی ترجیحات، خدمات اور کردار سمیت سارے معاملات سویلین لیڈر شپ کے سامنے کھول کر رکھے اور باور کرایا کہ ہم اپنی پیش وارانہ ذمہ دار یوں کی ادائیگی کے لئے ہر طرح سے الرٹ ہیں اور کبھی اپنی سر زمین پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مسلح افواج کی جانب سے اپنے تمام معاملات پر سویلین قیادت کو اعتماد میں لینے کے عمل کو ملکی بقا ، سلامتی اور استحکام کے حوالے سے اہم قرار دیا جاسکتا ہے جس کا فائدہ کسی ادارے ، حکومت کو ہو نہ ہو پاکستان کو ضرور ہوگا کیونکہ یہی آئین پاکستان کی اصل روح ہے ۔