اڈیالہ جیل سے رہائی، نواز شریف، مریم اور محمد صفدر جاتی امراء پہنچ گئے

Last Updated On 20 September,2018 09:21 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا ہے، اپیلوں پر حتمی فیصلے تک تینوں کی سزائیں معطل رہیں گی۔

سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی رہائی کیلئے ان کے بھائی شہباز شریف اڈیالہ پہنچے، اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، سابق وزیرِاعظم، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور منتقل کیا گیا۔

محکمہ داخلہ پنجاب نے سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو روبکار پہنچنے پر فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد رات تقریباً 7 بجے ایون فیلڈ ریفرنس کے تینوں مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔

سابق وزیرِاعظم کے استقبال کیلئے اڈیالہ جیل کے باہر پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی، کارکنوں کی جانب سے نواز شریف کے حق میں شدید نعرہ بازی کی گئی۔ ان کا قافلہ ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں ہوا تو ٹریفک جام کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

جاتی امراء پہنچنے پر میاں نواز شریف نے اپنی والدہ سے ملاقات کی اور دعائیں لیں، انہوں نے رات کا کھانا اپنی والدہ کے ساتھ کھایا۔ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے لئے آلو گوشت، ماش کی دال اور کھیر خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔

سابق وزیرِاعظم کا قافلہ لاہور ایئرپورٹ سے رنگ روڈ کے ذریعے جاتی امراء روانہ ہوا تو کارکنوں کی جانب سے نواز شریف کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ لیگی کارکنوں کے کا جواب نواز شریف نے ہاتھ ہلا کر دیا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزائیں معطل کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ تینوں کی اپیلوں پر حتمی فیصلے تک احتساب عدالت کا حکم معطل رہے گا۔ ملزمان کو ضمانتی مچلکوں کے عوض جیل سے رہا کیا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سزا معطلی کی اپیلوں پر دلائل مکمل ہونے کے بعد پہلے فیصلہ محفوظ کیا جو ایک گھنٹے بعد دن تین بجے سنایا گیا۔

فیصلے کے بعد سینیٹر چودھری تنویر، سینیٹر آصف کرمانی اور سابق وفاقی وزیر طارق فضل چودھری نے ملزمان کی ضمانت کے کاغذات جمع کروائے۔ فیصلے کے موقع پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سمیت لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کے اندر اور باہر موجود رہی۔

آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے روبرو نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا گلف سٹیل کے 25 فیصد شیئرز فروخت کا معاہدہ جعلی ہے، مجرمان کا دعویٰ ہے کہ 1978ء میں گلف سٹیل ملز کے 75 فیصد شئیر فروخت کیے اور 1980ء میں بقیہ 25 فیصد شئیر 12 ملین درہم میں فروخت کیے، مجرمان کے مطابق لندن فلیٹس کی رقم کی بنیاد یہی 12 ملین درہم ہیں، 12 ملین درہم کی منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ہے، 12 ملین درہم میں شئیرز فروخت کے معاہدے کی یو اے ای حکام نے تصدیق نہیں کی۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا مجرمان کا یہ موقف کہاں پر آیا ؟ جس پر اکرم قریشی نے کہا سپریم کورٹ میں مجرموں نے یہ موقف دیا کہ فلیٹس گلف سٹیل کی فروخت سے آئے، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا سپریم کورٹ کی درخواستوں پر موقف ٹرائل کورٹ میں موقف کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا ہمارے پاس بھی یہی موقف اپنایا گیا کہ لندن فلیٹس کی رقم گلف سٹیل ملز سے آئی۔ جے آئی ٹی میں مجرموں کا یہ موقف تھا۔ مریم نواز نے کہا کہ وہ نواز شریف کی زیرِ کفالت ہیں اور ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے اپنے دلائل میں کہا کہ قطری شہزادے کو ایک سے زائد خطوط لکھے گئے کہ آپ آ کر اپنا بیان قلمبند کرائیں، قطری کو یہاں تک کہا گیا کہ اگر یہاں نہیں آتے تو وہاں آ کر بیان قلم بند کر لیں گے، 2012ء تک مریم نواز ان فلیٹس کی بینفشل اونر تھی، بعد میں ایک جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر ٹرسٹی بنیں، مریم نواز کا ایک بیان ہے کہ وہ اپنے والد کی زیر کفالت ہیں اور والد کے گھر میں رہتی ہیں، مریم نواز جب زیر کفالت تھیں تو نواز شریف پر بوجھ پڑ رہا تھا کہ زیر کفالت بچی مالک کیسے ہے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا 1993ء میں مریم نواز کی عمر کیا تھی جس پر اکرم قریشی نے کہا کہ اس وقت مریم نواز 20 سال کی تھیں۔

عدالت نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ 1993ء میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے، مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا؟ آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ فلیٹس نواز شریف کے ہیں، جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا یہ میں نہیں کہتا یہ قانون کہتا ہے کہ آپ فرض کریں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کئے گئے چارٹ پر نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈز کہیں بھی رجسٹر نہیں کروائی گئی تھیں، جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ نے سوالنامہ دیا تھا، ایک ایم ایل اے کے جواب میں پتہ چلا بینیفشل مالک مریم نواز ہیں، ہم نے دلائل کے آغاز میں ہی کمپنیوں کا ایک چارٹ پیش کیا تھا، اس چارٹ کے مطابق ایک کمپنی کے چئیرمین میاں نواز شریف ہیں، اس کمپنی کا نام کیپٹل ایف زیڈ ای ہے، یہ کمپنی نیلسن، نیسکول اور کومبر سے ڈیل کرتی تھی، نیلسن، نیسکول اور کومبر کا ذکر ٹرسٹ ڈیڈز میں موجود ہے، ٹرسٹ ڈیڈز میں فلیٹس کے نمبر بھی دیئے گئے ہیں، نواز شریف کا لندن فلیٹس کے درمیان یہ لنک بنتا ہے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس کیس میں شک کا فائدہ ملزم کو نہیں دیا جانا چاہیے، جس پر جہانزیب بھروانہ نے کہا جی بالکل، اس کیس میں شک کا فائدہ ملزم کو نہیں دیا جا سکتا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے جس شخص نے چارٹ پیش کیا وہ کہتا ہے مجھے نہیں معلوم کس نے بنایا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا ریکارڈ ایف بی آر اور الیکشن کمیشن سے لیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جہانزیب بھروانہ سے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف نے اثاثے بنائے اور مریم نواز نے ان کی مدد کی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی بالکل، مریم نواز نے اثاثے بنانے میں مدد کی۔

جسٹس میاں گل حسن نے کہا تو پھر مریم نواز کو سیکشن 9 اے 5 کے تحت سزا کیسے ہوئی؟ کیا پراپرٹیز بنانے میں مریم نواز کا کوئی تعلق نہیں؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا اثاثے بنانے میں مدد کرنے والے پر سیکشن 9 اے 5 کے ذریعے 9 اے 12 لگائی جاتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے لیکن فیصلے میں 9 اے 5 اور 9 اے 12 دونوں لکھی گئی ہیں، پھر شاید یہ ٹائپنگ کی غلطی ہو گی۔

سماعت سے پہلے ہی کمرہ عدالت کچھا کچھ بھر ہوا تھا، پراسیکیوشن ٹیم اور درخواست گزاروں کے وکلاء اور لیگی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

گزشتہ روز شریف فیملی کے افراد کی سزا معطلی کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر یہ جائیداد نواز شریف کی تھی تو مریم نواز کو نیب آرڈیننس کی دفعہ 9 (اے) 5 میں سزا کیسے ہو گئی؟ دونوں کو ایک وقت میں ملکیت کی سزا کیسے ہو سکتی ہے؟

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے تو نواز شریف کی ملکیت کیسے ہے؟ کیا اس مفروضے پر فوجداری قانون کے تحت سزا سنا دیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دئیے کہ اپارٹمنٹس پر قبضہ ثابت ہونے کے بعد مجرمان کو بتانا تھا کہ اثاثے کیسے بنائے؟ رقم منتقلی کا معاہدہ جعلی ثابت ہوا۔ مریم نواز کو ٹرسٹی بنانے والی ڈیڈ بھی جعلی نکلی اور ان کے اثاثے بھی آمدن سے زائد ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے پاناما فیصلے کا حوالہ دیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب ریفرنسز کی تمام کارروائی پاناما فیصلے سے اثر انداز ہوئے بغیر ہونا تھی، اگر فیصلے کا اثر ہوتا تو سپریم کورٹ خود ہی سزا دے دیتی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیلبری فونٹ والی ٹرسٹ ڈیڈ برطانیہ میں رجسٹر نہیں کرائی گئی، مریم نواز نے خود سے بوجھ اتارنے کے لیے یہ ٹرسٹ ڈیڈ بنوا کے بھائی کو بینیفشل اونر قرار دیا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حسن اور حسین نواز بھی تو نواز شریف کے بچے ہیں، اگر نواز شریف مالک ہیں تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ آپ چاہتے ہیں کہ ہم مفروضے پر کریمنل سزا کو برقرار رکھیں، جس طرح سے ٹرائل کورٹ نے مفروضے پر مبنی فیصلہ دیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف، مریم نواز کے شراکت دار ہیں؟ اکرم قریشی نے کہا کہ نہیں، نیب کا کیس یہ نہیں ہے۔ بھاری رقوم کی منتقلی اور درجنوں کمپنیوں کا معاملہ ہے، سمجھانے کے لیے چارٹ پیش کرنا چاہتا ہوں، کل تک مہلت دے دیں۔ عدالت نے کل تک دلائل مکمل کرنے مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا معطلی کی درخواستوں پر کارروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ نیب پراسیکیوٹر نے دلائل مکمل کرنے کے لیے کل تک مہلت مانگی، اگر بدھ تک دلائل مکمل نہ کیے تو تحریری دلائل پر فیصلہ کر دیں گے۔

یاد رہے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو دس سال قید، ایک ارب انتیس کروڑ روپے جرمانہ، مریم نواز کو سات سال قید، 32 کروڑ روپے جرمانہ، شریف فیملی کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بحقِ سرکار ضبط کرنے کا حکم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

Advertisement