لاہور: ( روزنامہ دنیا) موٹر وہیکل آرڈینس سوالیہ نشان بن گیا، قانون کے مطابق موٹر سائیکل ڈرائیور کے ساتھ پیچھے بیٹھے سوار مرد و خاتون کے لئے بھی ہیلمٹ پہننا لازمی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک چالان نہیں کیا گیا۔ موٹر سائیکل سوار کے آگے بیٹھے بچے اور پچھلے سوار کو حادثہ میں زیادہ چوٹ آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق 23 ستمبر سے موٹر سائیکل سوار کو ہیلمٹ نہ پہننے پر 1 ہزار روپے جرمانہ کی ہدایات جاری کی گئی ہیں مگر اس کے برعکس 10 جولائی 1965 کو وجود میں آنے والے پراونشل موٹر وہیکل آرڈینس کی شق نمبر 89، اے کے مطابق موٹر سائیکل ڈرائیور کے ساتھ پیچھے بیٹھے مرد و عورت پر بھی ہیلمٹ پہننا ضروری ہے مگر اس قانون کے برعکس ٹریفک وارڈن کو چالان بک میں صرف موٹر سائیکل ڈرائیور کو ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کرنے کی ہدایات ہیں۔ ابھی تک صوبائی دار الحکومت میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے جس میں پیچھے بیٹھے سوار کا ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ایک حساس معاملہ یہ بھی ہے کہ دو سواروں پر ہیلمٹ پہننے کا قانون موجود ہے مگر موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھے بچے بارے کسی قسم کی ہدایات جاری نہیں کی گئی ہیں۔ پنجاب کے معروف نیورو سرجن پروفیسر رضوان مسعود بٹ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس سر کی چوٹ کے زیادہ تر مریض ایسے آتے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے ہوتے ہیں اور پیچھے بیٹھے سوار کو ڈرائیور کی نسبت زیادہ چوٹ آتی ہے اس لئے سب کے لئے ہیلمٹ لازمی ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی لاہور ہائیکورٹ کی ہدایات کے مطابق آج سے ای چالان کا آغازکر ے گی۔ ترجمان کے مطابق ابتدائی طور پر جرمانہ بینک آف پنجاب میں جمع ہو گا جبکہ جرمانے کی رقم جمع کر انے کے لیے نیشنل بینک آف پاکستان کو بھی سسٹم میں شامل کیا جا رہا ہے۔ جرمانہ دس دن کی مقررہ مدت میں ادا کرنا لازمی ہوگا۔ مسلسل خلاف ورزی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں گاڑی کو قبضے میں لیا جاسکتا ہے۔ گاڑی کے مالک کے علاوہ اگر کوئی اور گاڑی چلا رہا ہو گا تو چالان گاڑی کے مالک کے پتہ پر ہی ارسال کیا جائے گا۔ گاڑی کو فروخت کرنے کی صورت میں دستاویزات کی تبدیلی کے وقت جرمانوں کی ادائیگی لازم ہوگی۔ اسی طرح دوسرے شہروں سے آنے والی گاڑیوں کیلئے بھی نظام لایا گیا ہے۔