لاہور: (امتیاز گل) غلط فہمی کی گنجائش نہیں،’’محفوظ ٹھکانے اور پاکستانی نیوکلیئر ہتھیار اور مواد ‘‘ ابھی تک امریکی انتظامیہ کی فکرو سوچ کا محور ہیں اور امریکی پاکستان کو صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا پالیسی کے تابع بنانے کیلئے ہرقسم کا دباؤ ڈالتے رہیں گے۔ ووڈروولسن سنٹر اور انڈس کے اشتراک سے پاکستان سے متعلق حالیہ کانفرنس سے قائم مقام ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ہنری انشر کے خطاب کا اہم نکتہ یہ تھا’’ہم اس حقیقت پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے کہ کچھ بیرونی دہشت گرد گروپوں کے پاکستانی سرزمین پر محفوظ ٹھکانے ہیں’’۔
مہمانوں کے سامنے یہ دوٹوک خطاب صدر ٹرمپ کی پاکستان پالیسی کے حقیقی خدوخال کا عکاس تھا، جس میں پاکستان اور خطے میں واشنگٹن کی دو نمایاں ترجیحات کا ذکر کیا گیا یعنی محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی سے متعلق تشویش جہاں سے دہشت گرد حملے کر کے علاقائی اور عالمی سکیورٹی خطرے میں ڈال سکتے ہیں، اور پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں اور مواد کو محفوظ بنانے کی ضرورت کہ دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ ہنری انشر کی جانب سے پاکستان سے متعلق ترجیجات اور ’’ڈومور ‘‘ کی براہ راست نشاندہی حاضرین کی اکثریت کیلئے حیران کن اور روایتی گاجر چھڑی پالیسی کی عکاس تھی۔ دراصل، ان کا خطاب خدشات، مطالبات اور پاکستان سے توقعات سے لبریز تھا، جس کے نمایاں نکات یہ ہیں:
1) افغانستان میں استحکام کی کوششیں پاکستان کیساتھ ہمارے بنیادی اور اہم پالیسی اختلاف کی وجہ ہیں۔ کوئی پارٹنرشپ اس تفریق کی متحمل نہیں ہو سکتی اور جب تک یہ تفریق رہے گی، دوطرفہ روابط میں بدمزگی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
2) اگرچہ ہم نے علاقائی ڈپلومیسی کو توسیع دی ہے، مگر خصوصی کردار پاکستان کا ہی ہے، باہمی مفاد پر مبنی نتائج پر نظر رکھتے ہوئے ہم نے پاکستان کیلئے اپنی پالیسی میں کافی گنجائش پیدا کی ہے۔
3) پاکستان اگر پرعزم ہو تو اپنی سرزمین پر دہشت گردی سے نمٹ سکتا ہے، مگر ہم نے پاکستان کو ایسے فیصلہ کن اقدامات کرتے ہوئے نہیں دیکھا جوکہ اس کے عزم کا مظہر ہوں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کی سرزمین طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر گروپ خطے میں تشدد اور عدم استحکام کیلئے استعمال نہیں کر سکیں گے۔
4) افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا پارنٹر بننے میں پاکستان کا بہت فائدہ ہے، جبکہ افغانستان کے امن و استحکام کیلئے خطرہ بننے والوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے میں اسی قدر نقصان ہے۔
5) پاکستان کیلئے یہی وقت ہے کہ مظاہرہ کرے کہ وہ خطے میں امن کیلئے تعمیر ی پارٹنر ہو گا، یہ بات درست ہے کہ ہم پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں، جوکہ امریکہ کے قومی مفادات کو آگے بڑھا نے کیلئے ہماری پالیسی کا اہم حصہ ہے۔
6) جنوری 2018 میں سکیورٹی امداد اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی معطلی سے پاکستان کی منفی پالیسیوں پر امریکی تشویش کی عکاسی ہوتی ہے۔
7) جنوبی ایشیا سٹریٹجی کے مطابق پاکستانی پالیسی میں تبدیلی پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔
8) پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے چوری ہونے اور غلط استعمال کی تشویش ایک بڑا خطرہ ہے، اور یہ خطرہ بھی بڑھ رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین روایتی جنگ نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچ سکتی ہے۔
9) پاکستان کی نئی حکومت کیلئے موقع ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام اور پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کیلئے ہماری پارٹنر بنے۔ ایسا کرنے سے باہمی مفاد پر مبنی تعلقات کی راہ ہموار ہو گی۔
10) مواقع پر محض باتیں نہیں کی جاتیں، بلکہ فعال ہو کر ان کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
ہنری انشر کے خطاب سے امریکہ کی پاکستان سے توقعات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف ) کی گرے لسٹ کے حوالے سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات کا مطالبہ ان کثیر جہتی حربوں میں سے ایک ہے ، جوکہ ممکنہ طور پر پھندا بن سکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے، جس سے پاکستانیوں کو گوناگوں مالیاتی اور سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگلا ممکنہ تادیبی قدم دوطرفہ معاشی پابندیاں ہو سکتی ہیں، ٹویٹر پر صدر ٹرمپ ان اقدامات کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکام اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے اقدامات سیاسی تھے، مگر محفوظ ٹھکانوں اور دیگر ملکوں کیلئے خطرہ بننے والے غیر ریاستی عناصر جیسے الفاظ پاکستان پر بھارت، امریکہ اور افغان بیانیے کو آپس میں جوڑ دیتے ہیں۔
اس صورتحال میں اسلام آباد اور راولپنڈی نے جو بہت بڑے کام کرنے ہیں، ان میں ایک طرف قومی مفادات کو محفوظ بناتے ہوئے توازن تلاش کرنا ہے ، تو دوسری جانب پاکستان سے متعلق واشنگٹن کی بنیادی ترجیحات پر توجہ دینا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سدباب کی توقعات جائز ہیں، ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے پاکستان کو اپنے مفاد میں یہ توقعات پوری کرنی چاہئیں۔ ہر قسم کے غیر ریاستی عناصر کو بھی مسترد کر دینا چاہیے۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس سے پاکستان سے متعلق امریکہ کی جٖغرافیائی و سیاسی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی کہ نہیں۔