لاہور: (روزنامہ دنیا) پشاور کا بس منصوبہ جو 6 ماہ میں مکمل کیا جانا تھا ایک سال میں بھی ادھورا پڑا ہے جبکہ اسکی لاگت اب 49 ارب سے تجاوز کر کے 66 ارب 43 کروڑ تک جا پہنچی۔ اس پراجیکٹ میں پشاور کے علاقے چمکنی سے حیات آباد تک 26 کلومیٹر سٹرک تعمیر کرنی تھی، منصوبے کی تکمیل کی مدت صرف 6 ماہ مقرر کی گئی تھی تاہم منصوبے میں چند تکنیکی مسائل اور تبدیلیوں کے باعث تکمیل کی تاریخ تبدیل کی جاتی رہی۔
سٹرک کی لمبائی 65 کلومیٹر تک جا پہنچی، اس سٹرک پر 220 بسیں چلائی جائیں گی جن میں سے 65 بسیں 18 میٹر اور 155 بسیں 12 میٹر کی ہوں گی، منصوبے میں اب تک 5 بڑی جگہوں پر تبدیلی کی گئی ہے۔ چمکنی ڈپو کے قریب مزید 3 پلوں کی تعمیر شامل ہے۔
ڈائریکٹر پی آئی او بی آر ٹی عالم زیب کے مطابق منصوبے کا انفراسٹرکچر دسمبر 2018 میں مکمل ہو جائے گا تاہم 23 مارچ 2019میں اس پر بسیں چل سکیں گی، دوسری طرف تعمیراتی کام کے باعث شہر میں تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔
بی آر ٹی کے حوالے سے پشاور کے تاجروں کو خدشات اور تحفظات ہیں۔ تاجروں کے مطابق شہر کے 30 ہزار سے زائد تاجروں کو چھ ماہ کے دوران کاروبار میں 80 فیصد کمی کا سامنا ہے، جس کے باعث کاروبار پشاور سے راولپنڈی منتقل ہوگیا، بی آر ٹی منصوبے کے باعث ایک طرف سخت پریشان ہیں تو دوسری طرف گردو غبار نے سانس کی بیماریوں میں بھی اضافہ کردیا۔
شہریوں کے مطابق بی آر ٹی کے باعث ٹریفک جام تو معمول ہے تاہم اس پراجیکٹ کے باعث کاروبار متاثر ہوا ہے، موجودہ حکومت کی جانب سے ایک بار پھر پراجیکٹ کی تکمیل کی نئی تاریخ دے دی گئی ہے جس سے انتظار کی گھڑیاں مزید طویل ہو گئی ہیں۔