بلوچستان میں پھر تبدیلی کے بادل

Last Updated On 20 November,2018 12:32 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے سپیکر شپ کے عہدے سے مستعفی ہونے کی خبروں نے بلوچستان کے سرد موسم میں جہاں ایک طرف سیاسی گرما گرمی پیدا کر دی وہیں حکومتی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے اندرونی اختلافات کی ہانڈی بیچ چوراہے میں پھوڑکر جام کمال کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو جن کی خواہش تھی کہ وہ معرض وجود میں آنے والی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی سربراہی کرتے لیکن انہیں پارٹی کی صدارت سے محروم کر دیا گیا۔ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی باپ نے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی تو اس میں بھی قدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کا تاج پہنانے کے بجائے پارٹی کے مرکزی صدر جام کمال کو یہ منصب سو نپ دیا گیا۔

وزیراعلیٰ جام کمال اور قدوس بزنجو کے درمیان اگرچہ دوریاں پیدا ہوئیں لیکن میڈیا پر دونوں کے درمیان اختلافات کی تردید ہوتی رہی، قدوس بزنجو کو سپیکر بنا دیا گیا لیکن باپ کے اندرونی اختلافات ختم نہ ہو سکے۔ سپیکر قدوس بزنجو گزشتہ 3 ماہ خاموش رہے اور عملی سیاسی سرگرمیوں سے بھی دور رہے لیکن اچانک وہ بول اُٹھے اور اس کا شکوہ کر ڈالا کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے ان کے ساتھ زیادتیاں شروع کر دی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ان کی سرکاری رہائش چھینی، پھر گاڑیاں اور سیکیورٹی واپس لی گئی اور اب ان کے حلقہ میں ان کے حریف سردار امین محمد حسنی کو معاون خصوصی بناکر ان کے مخالفین کو نوازا جارہا ہے جس پر اب وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔

سیاسی تجزیہ کار عبدالقدوس بزنجو کے استعفے کے فیصلے کو موجودہ حالات کے تناظر میں بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ بلوچستان میں فی الوقت کوئی تبدیلی تو نہیں آئے گی لیکن قدوس بزنجو کا استعفیٰ اس تبدیلی کے لئے بارش کا پہلا قطرہ ضرور ثابت ہو گا کیونکہ وزیراعلیٰ جام کمال کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی بہت سے ارکان ان سے ناخوش نظر آتے ہیں۔

بلوچستان میں اگر دیکھا جائے تو جام کمال 65 کے ایوان میں 36 ارکان کی حمایت سے قائد ایوان کے منصب پر براجمان ہیں 36 میں سے دو ارکان کو الیکشن کمیشن نے نااہل قراردے دیا۔ اس وقت موجودہ اسمبلی میں قائد ایوان کو 34 ارکان کی حمایت حاصل ہے اگر اتحادی جماعتوں میں سے دو ارکان نے بھی اپنی حمایت واپس لے لی تو حکومت کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے ان حالات میں بلوچستان میں حکومت اس وقت انتہائی نازک مراحل سے گزر رہی ہے۔

صوبہ میں مخلوط حکومت کے بعض اتحادی بھی حالیہ دنوں میں 4 معاون خصوصی صرف بلوچستان عوامی پارٹی سے ہی لینے پر ناراض دکھائی دے رہے ہیں ان حالات میں جب پارٹی کے اندر اختلافات اور اتحادی بھی ناخوش ہوں تو وزیراعلیٰ جام کمال کے لئے اپنے اقتدار کو سنبھالنا مشکل نظرآتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کو فوری طور پر اپنی پارٹی کے اندرونی اختلافات کو دور کرنے اور اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔