لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) بظاہر تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ترجمانوں کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے درمیان رابطوں کی تردید کی جا رہی ہے لیکن عملاً صورتحال اور حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات ممکن نہ بھی ہو مگر آنے والے وقت میں حالات انہیں کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر سکتے ہیں اور حکومت کیخلاف ایوانوں کے اندر ہونیوالی صف بندی ایوانوں سے باہر بھی احتجاج کی لہر پیدا کر سکتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اپوزیشن کی سیاست وہ نہیں ہوتی جو جمہوری اور پارلیمانی سیاست کے تناظر میں دیکھی جا رہی ہو۔ ہمارے ہاں اپوزیشن کی سیاست کا انحصار حکومت کی مخالفت اور اس کی مقبولیت اور ساکھ کو قبول نہ کرنے سے جڑا ہوتا ہے ۔ جمہوری سسٹم میں اپوزیشن کو متبادل حکومت کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور جمہوری معاشروں میں حزب اختلاف نہ صرف حکومتی کارکردگی اور امور پر نظر رکھتی ہے بلکہ حکومت پر دباؤ ڈال کر اس کی سمت کی درستگی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں اپوزیشن کی سیاست کا مقصد حکومت کو گرانے، اسے دفاعی محاذ پر لانے اور اسٹیبلشمنٹ سے ملکر جمہوری عمل کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں حکومتی ساکھ کے ساتھ خود اپوزیشن کی سیاسی ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور آج بھی اگر سیاسی محاذ پر دیکھا جائے تو جہاں حکومت کو اپنی کارکردگی اور ٹیک آف کرنے کے لالے پڑے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن نے بھی حکومت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پر پرزے نکالنا شروع کر دیئے ہیں اور اس میں بنیادی کردار اس خوف کا ہے جو احتساب کے عمل نے پیدا کر رکھا ہے اور تاثر یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کے بعض اہم رہنماؤں کے خلاف احتساب کا شکنجہ کسا دیکھنا چاہتی ہے جس کا بارہا اظہار خود وزیراعظم عمران خان ان کی حکومت کے ترجمان فواد چودھری ، وفاقی وزیر شیخ رشید سمیت بعض دیگر کے بیانات سے ہوتا ہے۔ اب اس جلتی پر تیل خود آصف زرداری نے ڈال دیا ہے جن کے حوالے سے خبریں ہیں کہ دسمبر کا آخری ہفتہ ان کے گرد قانونی شکنجہ کسے جانے کے باعث اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے دفاعی محاذ پر رہنے کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ احتساب کے عمل میں اگر ان کی گرفتاری ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی کا کوئی سیاسی کیس بن سکے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی قیادت بھی احتسابی عمل سے دو چار ہاتھ پاؤں ما رہی ہے مگر خود مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف حکومت اور نیب کو ٹارگٹ کرتے نظر آ رہے ہیں البتہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے انہوں نے ہاتھ ہولا کر لیا ہے۔ مسلم لیگ ن تو شروع سے یہ چاہتی تھی کہ پیپلز پارٹی سے مل کر اپنی سب سے بڑی مخالف تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے باوجود پاؤں نہ لگنے دے مگر پیپلز پارٹی خصوصاً آصف زرداری نے مسلم لیگ ن سے کچھ فاصلہ رکھا کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں لے جانا چاہتے تھے یہی وجہ تھی پیپلز پارٹی نے عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات اور عام انتخابات کے بعد وزیراعظم، صدر اور سپیکر ڈپٹی سپیکر کے انتخابات میں مسلم لیگ ن سے فاصلہ رکھا مگر جوں جوں احتسابی عمل آگے بڑھنا شروع ہوا۔ اومنی گروپ اور بعض اربوں روپے کے چھپے اکاؤنٹس ظاہر ہونے لگے تو یہ تاثر نمایاں ہوا کہ اب سلسلہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری تک وسیع ہوگا پھر جے آئی ٹی کی تشکیل اور احتسابی عمل کے رخ سے ظاہر ہوگیا کہ ٹارگٹ زرداری ہی ہیں اور خود آصف زرداری نے احتساب کا رخ اپنی جانب آتا دیکھ کر ریت میں سر دبانے اور چھپانے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر کے نئی صورتحال طاری کر دی۔ اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اب اسٹیبلشمنٹ سے ریلیف ملنے والا نہیں اور اگر نئی صورتحال میں اپوزیشن جماعتیں مل کر نہیں چلیں گی تو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مل کر سب کو بڑی مشکل میں ڈال دیں گے۔
اگر فی الحال اپوزیشن اور اس میں شامل بڑی طاقتوں کی سیاسی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ان کی حکمت عملی میں قومی مسائل کو کم اور احتساب سے بچاؤ کی سیاست کو زیادہ بالادستی حاصل ہوگی۔ آنے والے وقت میں دیکھنا یہ پڑے گا کہ احتساب کا عمل کس حد تک نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ اپوزیشن حکومت کو دفاعی محاذ پر لانے میں کامیاب رہی ہے اور خصوصاً یہ کہ آصف زرداری کی بدلتی حکمت عملی میں ساری اپوزیشن، لیڈر شپ اور جماعتیں کسی ایک پلیٹ فارم اور نکات پر متحد ہو پائیں گی۔