لاہور: ( روزنامہ دنیا) ممتاز تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کی مختلف وجوہات میں مغربی پاکستان کی ایک خاص سوچ تھی جس سے مشرقی پاکستان میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ وہ برابر کے شہری نہیں۔ ان میں ایک بنگالی زبان تھی جس کی اہمیت قائد اعظم بھی نہ سمجھ سکے۔ 1970 کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا ایک سنگین غلطی تھی۔
پروگرام تھنک ٹینک میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس واقعہ سے بھی ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا، آج بھی سوچ کے حوالے سے ہم ایک گھٹن زدہ معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔ آصف زرداری کے بیان پر انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاسی میدان میں وہی بول رہے ہیں، وگرنہ سابق مرد آہن بالکل خاموش ہیں، سابق وزیراعظم کی باتوں میں بھی کوئی جان نہیں۔ لگتا ہے کہ ملک میں سیاست صرف زرداری کی شکل میں زندہ ہے۔
اسلام آباد میں دنیا نیوز کے بیورو چیف خاورگھمن نے کہا کہ کسی ایک شخص یا ادارے کو سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، اس سانحہ میں ہر کسی نے حصہ ڈالا تھا۔ عوامی لیگ نے 1970 کا الیکشن ضرور جیتا، ان کا عسکری ونگ تب بھی پوری طرح فعال تھا۔ انہوں نے کہا کہ آخر وہ کون سی ماڈرن مسلم ریاست ہے جس کی ہمیں پیروی کرنی چاہیے۔ ہر قوم اپنے مزاج کے گرد ہی پھل پھول سکتی ہے۔ آصف زرداری پر انہوں نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے پہلے سیاسی چانس لینے کی کوشش میں ہیں، شاید ان کے ساتھی بھی ان کے کھیل کا حصہ نہ بنیں۔
سینئر تجزیہ کارہارون الرشید نے کہا کہ بنگالی قوم پرستی کی قوت غیر معمولی تھی، جس کا ادراک شروع میں ہی کر لینا چاہیے تھا۔ تقسیم سے قبل مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے آخری اجلاس میں سہروردی نے متحدہ بنگال کی حمایت کی تھی۔ تقسیم کے بعد اقتدار کی مرکزیت بھی ایک مسئلہ بنی۔ وزیراعظم بننا مجیب الرحمن کاحق تھا، مگر وہ انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ زرداری کے بیان پر کہا کہ وہ ضرورت کے مطابق موقف اختیار کرتے ہیں، ورنہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تھے۔
دنیا نیوز کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹرسلمان غنی نے کہا کہ اگر وفاق کے تقاضے پورے کئے جاتے، اور مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ 1971 میں ملک جوڑنے والی کوئی قوت نہ تھی، آئین 1973 میں وجود میں آیا۔ اگر آئین کے بجائے طاقت کو بنیاد بنایا جائے تو مملکت مضبوط نہیں ہو گی، ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ آئین کی طاقت ہونی چاہیے، طاقت آئین نہیں۔ 16 دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول بھی ہوا، جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا، مگر اس پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوا۔ نیوکلیئر پاور ہونے کے باوجود بنگلہ دیش جی ڈی پی میں ہم سے بہت آگے ہے، اس کی وجوہات کا ہمیں جائزہ لینا ہوگا۔ زرداری کے بیان پر انہوں نے کہا کہ لگتاہے کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے وگرنہ تین ماہ پہلے وہ کہیں اور کھڑے تھے، شاید جے آئی ٹی کی رپورٹ کی وجہ سے وہ اپنا کیس سیاسی بنا نے کی کوشش میں ہیں۔ نئے انتخابات کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا، اسی حکومت کو ڈلیور کرنا پڑے گا۔