لاہور: ( روزنامہ دنیا) پاکستان جس کی بڑھتی ہوئی آبادی ملک کے کمزور تعلیمی نظام پر بوجھ بنی ہوئی ہے کے شمالی مغربی علاقے تنجائی چھینا کے ایک سکول میں عارضی طور پر بنائے گئے کلاس رومز طلبا سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ اس سکول میں ترپال کی چار دیواری ہے اور بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کلاس روم میں کھچا کھچ بھرے طلبا پشتو اور انگریزی کے سیکھے گئے الفاظ کو دہراتے ہیں‘‘ گوٹا’’ کا مطلب ‘‘فنگر’’اور ‘‘لاس’’ کا مطلب ‘‘ہاتھ ’’ہے۔ و اش روم جیسی انتہائی بنیادی سہولت سے محروم سکول میں دو ٹیچرز باری باری 4 کلاس رومز میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
پختونخوا کی خوبصورت وادی سوات کے سکول میں 19 سال سے خدمات سرانجام دینے والے بشیر خان جو سکول کے پرنسپل ہیں نے بتایا کہ بچیاں ضرورت کے وقت میرے گھر جاتی ہیں جبکہ بچے جھاڑیوں میں چلے جاتے ہیں، انتہائی قدامت پسند علاقہ جہاں ضبط تولید یا فیملی پلاننگ کا کبھی ذکر بھی نہیں سنا گیا وہاں سکول سسٹم کو آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ بشیر خان نے مزید بتایا کہ 1984 میں جب میرے والد نے اس سکول کا آغاز کیا تو 20 سے 25 بچے تھے اب 140 ہیں۔
پاکستان اس وقت آبادی کے ٹائم بم پر بیٹھا ہے۔ کئی سال کی زیادہ شرح پیدائش کا نتیجہ 20 کروڑ 70 لاکھ کی آبادی کی صورت میں سامنے ہے اور اس آبادی کا دو تہائی حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، ہر سال آبادی میں مزید 30 سے 40 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے جو تعلیم اور صحت کے اداروں پر بوجھ کا سبب بن رہا ہے۔ مینگورہ کے قصبے ملوک آباد کے پرائمری سکول میں 70 طلبا ہیں اور کلاس روم کی تعداد 6 ہے جن میں بیشتر 2005 کے زلزلے میں متاثر ہوئے اور اب بھی چھتوں سے پلستر گرتا رہتا ہے۔ چھوٹے بچے سکول کے کھلے گراؤنڈ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ دوسروں کو تپتے سورج کے نیچے چھتوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔
ایک ٹیچر انعام اللہ منیر نے کہا کہ 20 مربع فٹ کے ایک چھوٹے سے کلاس روم 135 بچیاں بیٹھتی ہیں۔ سوات کے محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر فیصل خالد نے کہا کہ یہ ایمرجنسی ایجوکیشن ہے۔ پاکستان جہاں تعلیم عرصے سے نظر انداز شدہ ہے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کی وجہ سے اس شعبے کو فنڈز بھی زیادہ نہیں مل سکے ایسے ملک میں خطرات زیادہ ہیں۔ سابق صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان نے بتایاکہ صوبے کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ اضافہ تھا۔ لیکن پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اورخواندگی میں اضافے کا کوئی تقابل نہیں ہے اگرچہ حکومت کا ان سہولیات کو توسیع دینے اور اوقات کار بڑھانے کا منصوبہ بھی ہے ، صوبائی دارالحکومت پشاور کا سب سے بہترین سرکاری سکول ماہرین تعلیم اور طلبا کیلئے ایک اہم مثال ہے جہاں درجنوں نئے کلاس رومز بنائے جانے کے باوجود ایک کلاس میں70طلبا ہوتے ہیں۔
ملک کے وزیر تعلیم شفقت محمود نے اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان اس وقت اپنے جی ڈی پی کا 2.2 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے اور آئندہ آنے والے برسوں میں اس کو دوگنا کر دیا جائے گا، زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس قدر زیادہ فنڈز خرچ کئے جانے کے بعد بھی صوبے کی ناخواندگی کی شرح میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی، 10 سال سے زائد عمر کے صرف 53 فیصد بچے ہی لکھ پڑھ سکتے ہیں اور یہی صورتحال پورے پاکستان میں ہے جہاں 2 کروڑ 26 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتاہے۔