لاہور: ( روزنامہ دنیا ) سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جمعرات کو دوپہر کا کھانا اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھایا۔ جمعرات کے روز کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ان کا تمام اہل خانہ سے ملاقات کا دن رہا۔ اس کے بعد گاڑیوں کا قافلہ لاہور کے مضافات میں واقع شریف خاندان کی رہائشگاہ جاتی امرا واپس روانہ ہو گیا۔
کوٹ لکھپت سے جاتی امرا کا فاصلہ محض آدھ گھنٹے سے کچھ زیادہ پر محیط ہوگا۔ ان سے آئندہ ملاقات کرنے کے لیے بھی اہل خانہ کو زیادہ اہتمام نہیں کرنا ہوگا۔ کیا یہی وجہ تھی کہ احتساب عدالت کی طرف سے العزیزیہ ریفرنس میں سزا پانے کے بعد نواز شریف اڈیالہ جیل راولپنڈی نہیں رکنا چاہتے تھے ؟ لیگی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ایسا ہی ہے۔لاہور نہ صرف نواز شریف کا گھر ہے اسے ان کی جماعت کا گڑھ بھی مانا جاتا ہے جہاں ان کی جماعت کے زیادہ رہنما بھی رہائش پذیر ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اس کے سوا کوئی اور وجہ ہو نہیں سکتی تھی۔ رہیں گے تو وہ قید ہی میں اڈیالہ میں ہوں یا کوٹ لکھپت میں۔ یہاں صرف یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ذرا زیادہ قریب ہوں گے اور ان سے ملنے کے لیے آنے میں اہل خانہ کو زیادہ تکلیف نہیں اٹھانا پڑے گی۔ اس انتظام میں نواز شریف کی والدہ جو کہ ویل چیئر کے سہارے سے نقل و حرکت کرتی ہیں انھیں نواز شریف سے ملاقات میں آسانی ہو گی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے کوٹ لکھپت جیل منتقل ہونے کے فیصلے کے پیچھے یہی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں جب وہ اڈیالہ میں تھے تو ان کی والدہ شاید ان سے ملاقات کے لیے کبھی نہیں آ پائی تھیں۔ ان کے لیے نقل وحرکت مشکل ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو گی کہ نواز شریف نے لاہور جیل منتقل کرنے کی درخواست دی ہو گی۔ دونوں جیلیں ایک ہی صوبے یعنی پنجاب میں واقع ہیں اس لیے نواز شریف کو اڈیالہ کے بجائے کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کرنے میں کوئی قانونی یا انتظامی دقت بھی نہیں تھی حالانکہ ان کے خلاف پانامہ سے تعلق رکھنے والے تمام تر ریفرنسز کی تفتیش و پیروی نیب راولپنڈی کر رہا ہے۔
مصدق ملک کا کہنا تھا جس نے ملاقات کرنی ہو وہ پہنچ تو کہیں بھی سکتا ہے تاہم نواز شریف اڈیالہ میں رہتے تو ان کے اہل خانہ کو ان سے ملنے کے لیے زیادہ اہتمام کرنا پڑتا۔ اس میں ایک روز پہلے سے تیاری کرنا پڑتی اور پھر لمبا سفر بھی کرنا پڑتا۔ سزا سنائے جانے کے فوراً بعد نواز شریف نے عدالت سے انھیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا۔