لاہور: (ویب ڈیسک) سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی بیٹی سے مرحومہ اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی تصویر مانگ لی۔
العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیر اعظم نے اپنی بیٹی مریم نواز سے مرحومہ اہلیہ کلثوم نواز کی تصویر مانگی ہے۔
I went to see MNS at Kotlakhpat jail today. He was Masha’Allah in high spirits. I asked him if he needed anything from home & he said, ‘yes, Kalsoom’s photos’.
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) December 27, 2018
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اظہار خیال کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ آج والد میاں نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات ہوئی، ان کا حوصلہ بلند ہے، نواز شریف سے پوچھا کہ آپ کو گھر سے کسی چیز کی ضرورت ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں مجھے کلثوم کی تصویر چاہیے۔
نواز شریف کوٹ لکھپت کیوں منتقل ہوئے؟
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے بروز جمعرات دوپہر کا کھانا اپنے اہلخانہ کے ساتھ کھایا۔ جمعرات کے روز کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ان کا تمام اہلخانہ سے ملاقات کا دن رہا۔ ملاقاتوں کا سلسلہ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنماؤں کی آمد سے شروع ہوا۔
رانا تنویر احمد آئے، پلاننگ کے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال بھی کوٹ لکھپت پہنچے۔ ان کے کچھ دیر بعد گاڑیوں کے ایک مختصر قافلے میں ان کی بیٹی مریم نواز، داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، والدہ بیگم شمیم اختر، ان کے چھوٹے بھائی عباس شریف کے بیٹے، شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز اور گھر کے دیگر افراد کوٹ لکھپت جیل پہنچے۔
نواز شریف کے اہلخانہ کے افراد اپنے ساتھ کچھ سامان لائے جس میں کھانے کے برتن دیکھے جا سکتے تھے۔ دیگر سامان میں پلاسٹک کی کرسیاں اور میز بھی شامل تھا۔ نواز شریف سے اہلخانہ کی ملاقات تقریباً دو گھنٹے کے لگ بھگ جاری رہی۔
اس کے بعد گاڑیوں کا قافلہ لاہور کے مضافات میں واقع شریف خاندان کی رہاشگاہ جاتی امرا واپس روانہ ہو گیا۔ کوٹ لکھپت سے جاتی امرا کا فاصلہ محض آدھ گھنٹے سے کچھ زیادہ پر محیط ہو گا۔ ان سے آئندہ ملاقات کرنے کے لیے بھی اہلخانہ کو زیادہ اہتمام نہیں کرنا ہو گا۔
کیا یہی وجہ تھی کہ احتساب عدالت کی طرف سے العزیزیہ ریفرنس میں سزا پانے کے بعد نواز شریف اڈیالہ جیل راولپنڈی نہیں رکنا چاہتے تھے؟ لیگی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ایسا ہی ہے۔لاہور نہ صرف نواز شریف کا گھر ہے، اسے ان کی جماعت کا گڑھ بھی مانا جاتا ہے جہاں ان کی جماعت کی پنجاب سے تعلق رکھنے والی قیادت کے زیادہ رہنما بھی رہائش پذیر ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے نواز شریف کے دورِ حکومت میں ان کے مشیر رہنے والے ن لیگ کے رہنما سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہو نہیں سکتی تھی۔ ’رہیں گے تو وہ قید ہی میں، اڈیالہ میں ہوں یا کوٹ لکھپت میں۔ یہاں صرف یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ذرا زیادہ قریب ہوں گے اور ان سے ملنے کے لیے آنے میں اہلخانہ کو زیادہ تکلیف نہیں اٹھانا پڑے گی۔‘
اس انتطام میں نواز شریف کی والدہ جو کہ ویل چیئر کے سہارے سے نقل و حرکت کرتی ہیں، انھیں نواز شریف سے ملاقات میں آسانی ہو گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے کوٹ لکھپت جیل منتقل ہونے کے فیصلے کے پیچھے یہی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
’میرے خیال میں جب وہ اڈیالہ میں تھے تو ان کی والدہ شاید ان سے ملاقات کے لیے کبھی نہیں آ پائیں تھیں۔ ان کے لیے نقل و حرکت مشکل ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو گی کہ نواز شریف نے لاہور جیل منتقل کرنے کی درخواست دی ہو گی۔‘ دونوں جیلیں ایک ہی صوبے یعنی پنجاب میں واقع ہیں اس لیے نواز شریف کو اڈیالہ کے بجائے کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کرنے میں کوئی قانونی یا انتظامی دقت بھی نہیں تھی۔ حالانکہ ان کے خلاف پاناما سے تعلق رکھنے والے تمام تر ریفرنسز کی تفتیش و پیروی نیب راولپنڈی کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو احتساب عدالت نے سات برس قید کی سزا سنائی تھی جبکہ اس کے ساتھ ہی دوسرے ریفرنس یعنی فلیگ شپ میں انھیں باعزت بری کر دیا گیا تھا۔ سزا سنائے جانے کے فوراً بعد نواز شریف نے عدالت سے انھیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا۔
ان کے چھوٹے بھائی اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف پہلے ہی سے کوٹ لکھپت جیل میں نیب کے جوڈیشل ریمانڈ پر قید ہیں۔ ایسے میں ان کی سیاسی جماعت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے مرکزی قیادت پر مشتمل ایک ایڈوائزری بورڈ بنایا گیا ہے۔