اسلام آباد: (دنیا نیوز) جعلی اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے اختیارات سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی اس معاملے پر دوبارہ غور کرے، کابینہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی کیس سے الگ ہونے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے آصف زرداری اور فریال تالپور کو ہفتے کے آخر تک جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کیس کی وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ گورنر راج کی جو باتیں ہو رہی ہیں، کس آئین کے تحت لگے گا، ایک سیکنڈ لگے گا گورنر راج کا حکم نامہ ختم کرنے میں، جمہوریت کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی، جب جمہوریت کو خطرات تھے ہم نے حفاظت کی۔ انہوں نے کہا دوسرے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا، یہ اقدام شخصی آزادیوں کے خلاف ہے۔ ایسی کیا وجہ ہوئی کہ اتنے لوگوں کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے گئے، وزیراعلیٰ سندھ ایک منتخب قائد ہیں ان کی عزت کرنی چاہیے۔
ایف آئی اے اور جے آئی ٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے گزشتہ حکم نامہ پڑھا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا اس کیس میں نیشنل بینک کے سوا کسی کا کردار نہیں، یہ تو کسی بینک کی طرف سے درخواست ہے، جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
سپریم کورٹ نے وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے کہا وزیر مملکت برائے داخلہ عدالتی وقفے کے بعد پیش ہوں، تمام وزراء نے ٹی وی پر تبصرے شروع کر دیئے ہیں۔ وکیل انور مجید نے کہا ہم نے ابھی دستاویزات کا جائزہ نہیں لیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا میرا خیال ہے ملزمان زیادہ عرصہ جیل میں رہنا چاہتے ہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا آصف زرداری، فریال تالپور کی نمائندگی فاروق نائیک کر رہے تھے، فاروق ایچ نائیک کو بھی کیس میں ملوث کر دیا گیا، میری جعلی آڈیو ٹیپ چلا دی گئی، میری آواز ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ایک رپورٹ تھی، ابھی ہم نے اس پر کچھ نہیں کیا، ایف آئی اے سے پوچھتے ہیں کس نے جعلی آڈیو ٹیپ چلائی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا میں اس کیس سے الگ ہو رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو کیس سے الگ ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ عدالت کے افسر ہیں، فاروق ایچ نائیک کو عدالت میں پیش ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جے آئی ٹی والی رپورٹ کو محفوظ کیوں نہیں رکھ سکے ؟ رپورٹ کیسے لیک ہوئی؟ حکومتیں گرانے سے کام نہیں ہوسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا میرے بھائی کا نام بھی رپورٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ وکیل جے آئی ٹی فیصل صدیقی نے کہا جے آئی ٹی نے تفتیش سے 3 نتائج نکالے، جے آئی ٹی نے نیب ریفرنسز فائل کرنے کی تجویز دی، جے آئی ٹی نے کسی کا جرم ثابت کیا نہ ہی کسی کو معصوم قرار دیا۔
یاد رہے گزشتہ سماعت کے دوران سربراہ جے آئی ٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احسان صادق کی جانب سے عدالت کو بتایا کہ کراچی اور لاہور بلاول ہاؤس کے پیسے جعلی اکاؤنٹس سے ادا کئے گئے جبکہ بلاول ہاؤس لاہور کی اراضی زرداری گروپ کی ملکیت ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس سے آصف علی زرداری کے ذاتی اخراجات کی ادائیگیاں کی گئیں، بلاول ہاؤس کے کتے کے کھانے، صدقے کے 28 بکروں کے اخراجات بھی جعلی بینک اکاؤنٹس سے دیئے گئے۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی 128 صفحات پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ ان بینک اکاؤنٹس کو کمیشن کی رقم لینے اور منی لانڈرنگ کےلیے استعمال کیا گیا، بلاول کے بم پروف کنٹینر اور گاڑیوں کی خریداری کے لیے ایک کروڑ 46 لاکھ کی ادائیگی بھی جعلی بینک اکاؤنٹس سے ہوئی۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ فریال تالپر کے گھر، زرداری ہاؤس کے سیمنٹ، آصف زرداری اور خاندان کے لیے ایئر ٹکٹس کی ادائیگیاں، بلٹ پروف گاڑیوں، بلاول ہاؤس نوڈیرو کے بلوں کی ادائیگیاں بھی جعلی اکاؤنٹس سے کی گئیں۔
منی لانڈرنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، حکام کا دعویٰ تھا کہ جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے گئے جن سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ دباؤ کے باعث کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک نے ایس ٹی آرز بھیجیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی، جن کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا معاملہ سامنے آیا۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔