کراچی: (روزنامہ دنیا) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کا کہنا ہے کہ زرداری کے اسٹیبلشمنٹ سے گلے شکوے جاری ہیں، طویل عرصے سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ زرداری جب کسی کڑی مشکل میں پھنستے ہیں تو اس کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں، اس کے لئے وہ عوامی اجتماعات کا رخ کرتے ہیں جہاں پر وہ اسٹیبلشمنٹ سے گلے شکوے کرتے ہیں اور یہ معاملہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ 2009 سے اب 2019 آگیا ہے پورا ایک عشرہ بیت گیا، اسٹیبلشمنٹ کی کمان سنبھالنے والی تین شخصیات تبدیل ہو چکی ہیں لیکن زرداری کا لب و لہجہ نہیں بدل رہا۔ وہ کبھی 3 سالہ مدت کا طعنہ دیتے ہیں کبھی کٹھ پتلیوں کا ناچ نچانے کا ؟۔
اس حوالے سے ممتاز سیاسی تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری پر جب دباؤ ہوتا ہے تو وہ اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں لیکن ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت 3 سال ہوسکتی ہے لیکن آرمی چیف جس ادارے کی نمائندگی کرتے ہیں، اس کی مدت لا محدود ہوتی ہے اس کی سوچ کا ایک عمل ہوتا ہے مائنڈ سیٹ ہوتا ہے جس کی ترجمانی آرمی چیف کرتا ہے اور اس میں ہمیشہ تسلسل رہتا ہے اس لئے 3 سال کی بات کرنا ایک سیاسی نعرہ تو ہوسکتا ہے لیکن اصل مسئلہ کا حل نہیں۔
میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی ہے، اس حوالے سے حکومت کے لئے سرپرائز تھا کہ عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی سے منسلک معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس نے 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے وفاقی کابینہ کے فیصلے پر نظر ثانی کا حکم دیا ہے اور ای سی ایل کا معاملہ کابینہ کے اگلے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزرا کے بیانات اور گورنر راج کی باتوں پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کیا۔ جے آئی ٹی والوں اور حکومت کے لئے بھی خوشگوار دن نہیں تھا۔
دنیا نیوز کے لیگل افیئرز کے کارسپانڈنٹ حسنات احمد نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ ملزموں کو قانون کے مطابق پورا موقع فراہم کرنا چاہتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی اگلی سماعت بہت اہم ہوگی، چیف جسٹس ثاقب نثار 18 جنوری کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور غالب امکان ہے کہ 18 جنوری سے پہلے اس کیس کا فیصلہ ہو جائے گا۔
اس حوالے سے ممتاز قانون دان، پیپلز پارٹی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ اس کیس کو مزید تحقیقات کے لئے متعلقہ اداروں کو بھیجا جائے، حکومت نے 172 لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈال کر انھیں پہلے ہی داغدار کر دیا۔ ریاستی آداب میں اداروں کی تکریم کرنا بھی واجب ہے عدالت نے بھی احتراماً کابینہ کو بھیجا ہے۔ انھوں نے کہا ابھی عدالت سے جے آئی ٹی رپورٹ کو پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، سپریم کورٹ اس رپورٹ کو مسترد بھی کرسکتی ہے۔ جے آئی ٹی پر آج بھی ہمارے تحفظات ہیں کہ قانون میں اس کی گنجائش نہیں۔