لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ ) یہ تلخ حقیقت ہے کہ منشیات ہماری نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہیں۔ منشیات کی پیداوار میں افغانستان سر فہرست ہے جبکہ دنیا بھر میں پاکستان کو اس کی ترسیل کا بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک عالمی گو رکھ دھندا ہے جس کی تجارت کا حجم 503 ارب ڈالر بتایا جاتا ہے، 80 کی دہائی میں افغان جنگ کے بعد سے ہمارے ملک میں افیون، ہیروئن، کوکین اور چرس نے نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں۔
حالیہ سالوں میں پاکستان کے شہروں میں ایک نیا نشہ فروغ پا رہا ہے اس کا شکار بڑے شہروں میں صاحب حیثیت گھرانوں کے بچے اور بچیاں ہیں، تعلیمی اداروں میں یہ نشہ آسانی سے مل رہا ہے، والدین کیلئے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ یہ کرسٹل یا آئس کا نشہ کہلاتا ہے۔ کراچی میں یہ منشیات کس طرح پھیل رہی ہیں، د نیا نیوز کے نمائندے بلال نصیر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کرسٹل کو پارٹی ڈرگ یا کلب ڈرگ بھی کہا جاتا ہے یہ نشہ پڑھے لکھے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں خاصا مقبول ہو چکا ہے۔ ڈانس پارٹیوں اور گھروں میں ہونے والی نوجوانوں کی دعوتوں میں آسانی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ میٹافامن یا میہنامک نامی کیمیکل یا دوا دماغی امراض کے لئے انتہائی قلیل مقدار میں استعمال ہوتی ہے لیکن اس کی بھاری مقدار کرسٹل بنانے کے کام بھی آتی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اسے دھوئیں میں اڑاتے ہیں۔ انجکشن یا اسے سونگھ کر اپنی رگوں یا سانسوں میں بھی اتارتے ہیں۔ پولیس کی آنکھیں تب کھلیں جب یہ زہر شہر کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ گیا۔
پولیس اور رینجرز نے شہر بھر میں کریک ڈائون کر کے 100 کے قریب کارندوں کو گرفتار کیا، 8 سے 10 بڑے گینگ کراچی میں کرسٹل پہنچاتے ہیں افغانستان کا صوبہ ہلمند کرسٹل کے نشے کا حب سمجھا جاتا ہے جہاں بڑے پیمانے پر اس کی تیاری کا کام کیا جاتا ہے اور پھر پورے ایشیا میں ترسیل کی جاتی ہے پولیس کے مطابق پاکستان میں کوئٹہ اس کا بڑا حب ہے، دوسرا راستہ افغانستان سے پشاور کا ہے لیکن یہاں ترسیل بہت کم ہوتی ہے پولیس کے مطابق پاکستان میں اس کی زیادہ کھپت اسلام آباد، پشاور اور کراچی میں ہوتی ہے۔ منشیات بحالی مرکز کے عمران شاہ نے کہا کہ اس میں والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ چوکس رہیں۔ یہ نشے 13، 14 سال کی عمر میں شروع ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کا آغاز سکول سے ہوتا ہے نشہ کا آغاز چرس یا شراب سے ہوتا ہے اور یہ چیز بتدریج بڑھتی ہے کوئی بھی یکدم آئس کرسٹل کی طرف نہیں آتا۔ پولیس کے بغیر یہ نشہ نہیں بک سکتا۔ یہ نشہ پولیس کی سر پرستی میں ہی فروخت ہوتا ہے اس حوالے سے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سوچنا ہوگا۔