لاہور: (روزنامہ دنیا ) پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ صورتحال کشیدہ ضرورہے لیکن بھارت کی مجال نہیں ہے کہ وہ پاکستان پہ حملہ کرے، ہم نے نیوکلیئر طاقت حاصل کی ہے، فوج کو ضروری اقدام کرنے کیلئے پوری طرح اختیار دیدیا گیا ہے۔
پہلے بھارت نے 9/11 کا فائدہ اٹھایا تھا، دنیا میں دہشتگردی مخالف جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت ساری فوج لے آیا تھا، اس وقت بھارت نے بڑی ہمت کی تھی، ماحول کو مزید کشیدہ بنانے کیلئے بھارت نے سرینگر اور پارلیمنٹ کے واقعات کئے تھے۔ اس دفعہ بھی سعودی ولی عہد نے آنا تھا اور پاکستان افغانستان میں امن کیلئے جو کردار ادا کر رہا ہے، اس کو سبوتاژ کرنے کیلئے بھارت نے پلوامہ واقعہ کر دیا۔ بھارت کی یہ ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ جب بھی کوئی ہائی پروفائل دورہ اس علاقے اور پاکستان میں ہوتا ہے تو کسی نہ کسی طرح اس خطے میں اسی طرز کا واقعہ ہو جاتا ہے۔
مارچ 2000 میں امریکی صدر کلنٹن بھارت آ رہے تھے اور پاکستان کی اہمیت کی وجہ سے وہ پاکستان میں بھی چند گھنٹے کیلئے رکے تھے، لیکن اس سے چند دن قبل بھارت نے کشمیر کے علاقے چھتیس سنگھ پورہ میں سکھوں کا قتل عام کیا اور اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ اس واقعہ کا مقصد کلنٹن کے پاکستان کے دورے کو روکنا تھا تاکہ کسی طرح وہ کلنٹن کو مجبور کرسکے کہ وہ پاکستان نہ رکیں لیکن بھارت ان کو نہ روک سکا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی کوئی دورہ ہوتا ہے تو ایسا واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے تاکہ پاکستان پہ دنیا کا منفی فوکس ڈلوایا جا سکے اور جو دورے پر آرہا ہے اس کو شرمندگی ہو۔
سعودی شہزادے نے کھل کر بات واضح کر دی کہ ہم ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اب بھارت کو ہر طرف سے ناکامی کا سامنا ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد میں پاکستان کا نام ڈلوانے کی کوشش کی، وہ نہیں ہوا۔ ایف اے ٹی ایف میں کوشش کرتا ہے اور برکس میں جا کر شور مچاتا ہے، یعنی ہر طرف سے اسے ناکامی ہوئی ہے تو اب یہ کیا کرینگے، کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہے جو وہ کررہا ہے۔
ادھر پاکستان کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا، اس میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی لیڈر نے صحیح معنوں میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملک اور عوام کی خواہشات کی ترجمانی کی ہے۔