سمجھوتہ ایکسپریس کے شعلے بجھے نہیں

Last Updated On 21 March,2019 09:24 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) میری بچی 16 سال کی تھی میں آپ کو کیا بتاؤں جب میں نے اس کی لاش دیکھی تو وہ کس حال میں تھی ؟ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ شوکت علی دھاڑیں مار کر رونے لگے۔

فیصل آباد کے علاقے نیو مراد کالونی کے رہائشی شوکت علی فروری 2007 میں دہلی میں ایک شادی میں شرکت کے بعد اپنی بیوی اور چھ بچوں کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس پر پاکستان واپس آ رہے تھا کہ پانی پت کے علاقے دیوانہ کے قریب ریل گاڑی میں دھماکے ہوئے۔ دھماکوں کے بعد لگنے والی آگ میں رانا شوکت کے پانچ بچے درجنوں دوسرے افراد کے ساتھ زندہ جل گئے تھے۔ شوکت علی کے آنسو تھمے تو انہوں نے بات چیت دوبارہ شروع کی۔ اس روز مجھے نہ جانے کیوں خوف محسوس ہو رہا تھا۔ خاص طور پر جب سے گاڑی میں دو ایسے لوگوں کی موجودگی کا پتا چلا تھا جن کے پاس پاسپورٹ نہیں تھے۔ شوکت نے خلا میں گھورنا شروع کیا، جیسے وہ واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ بچوں کو لٹانے کے بعد میں بھی ایک برتھ پر آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔ سردی سخت تھی۔ سب نے کمبل اور لحاف اوڑھ رکھے تھے۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ پھر ایک دم سے دھماکے کی آواز آئی۔’میں تھوڑا چوکس ہوا لیکن پھر وہ آواز ٹرین کے شور میں دب گئی۔

شوکت آہستہ آہستہ تفصیلات بیان کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد شوکت کا دم گھٹنے لگا۔ میں نے آواز دینا چاہی تو گلے سے آواز نہ نکل سکی۔ ٹرین کی بتی بھی گل ہوچکی تھی۔ شوکت کہتے ہیں کہ انہوں نے اُٹھ کر دروازے تک پہنچنے کی کوشش کی اور دھکا دے کر دروازہ کھول دیا تاکہ وہ سانس لے سکیں لیکن دروازہ کھلتے ہی آکسیجن اندر داخل ہوئی اور آگ نے پورے ڈبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شوکت اور ان کی بیوی رخسانہ نے اپنی ایک دودھ پیتی بچی اقصیٰ کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس سے کود کر جان بچائی لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے پانچ بچے جل کر مر گئے۔ ہم چلاتے رہے ہمارے بچے بچاؤ، ہمارے بچے بچاؤ‘ لیکن جب تک مدد آئی بچے جل کر راکھ ہو چکے تھے۔ شوکت اور رخسانہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ شوکت نے بتایا کہ ان کے ہاتھ اور ماتھا جل چکا تھا اور گھٹنوں پر چلتی گاڑی سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے شدید چوٹ آئی تھی لیکن انہیں کسی درد کا احساس نہیں تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے آگ کے شعلوں میں لپٹی ٹرین تھی۔ اس ٹرین میں میرا ہنستا بستا گھر راکھ ہو رہا تھا۔

شوکت اور ان کی بیوی رخسانہ کو تھوڑی دیر بعد دہلی کے صفدر جنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ایک ہفتے کے علاج کے بعد انہیں پاکستان بھیجنے کی تیاری کی جانے لگی۔ لیکن انہوں نے اپنے بچوں کی لاشوں کے بغیر پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ رخسانہ کو اب بھی وہ لمحہ یاد ہے جب وہ اپنے بچوں کی لاشیں دیکھنے مردہ خانے گئی تھی، وہ ایک قیامت کا سماں تھا، رخسانہ کی آواز بھرا گئی۔ ہم نے بہت مشکل سے ساتھ چپکے کپڑوں اور چیزوں سے اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کو شناخت کیا۔ سوائے ہڈیوں کے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ میری دنیا برباد ہوگئی تھی۔ رخسانہ کی سب سے بڑی بیٹی عائشہ 16 برس کی تھی۔ جب ہمیں زبردستی ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو میں نے آگ بجھانے والوں کو تاکید کی تھی کہ عائشہ پرکپڑا ڈال کر نکالیں۔ میری بچی بہت حیادار تھی ، اس نے تو کبھی سر سے دوپٹہ نہیں ہٹایا تھا۔ رخسانہ پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔

رخسانہ اور شوکت علی کچھ روز بعد پانچ تابوتوں کے ساتھ پاکستان واپس آئے لیکن حادثے میں ہلاک ہونے والے 43 پاکستانیوں میں کچھ ایسے بھی تھے جنھیں اپنے ملک آنا نصیب نہ ہو سکا۔ شوکت کہتے ہیں کہ انہیں انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے مالی امداد دی گئی لیکن انہیں انڈیا کی کسی عدالت نے چشم دید گواہ کے طور پر گواہی کیلئے نہیں بلایا۔ مجھے سب کچھ یاد ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے مجھے موقع ملے کہ میں دنیا کو بتا سکوں کہ 18 فروی 2007 کی رات کو سمجھوتہ ایکسپریس میں سفر کرنے والے درجنوں بدقسمت مسافروں کے ساتھ کیا ہوا۔