لاہور: ( روزنامہ دنیا ) پاکستان کی نئی حکومت نے گزشتہ سال برسر اقتدار آتے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ غریبوں کا مالی بوجھ کم کر کے ان کی مدد کرے گی، عوام کو امید تھی کہ یہ وعدہ پورا ہوگا اور ان کے مسائل میں کمی ہوگی، لیکن پٹرول کے نرخوں میں اضافے نے عوام کی ان توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔
ٹیکسی ڈرائیور یاسر سلطان نے بتایا کہ پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے اس کی آمدنی گھٹ کر نصف ہوگئی ہے، 30 سالہ یاسر سلطان ان لاتعداد پاکستانیوں میں شامل ہے جنہوں نے نئی حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھیں لیکن اب ان کی امیدوں کے چراغ گل ہونے لگے ہیں، یاسر سلطان کے پاس 1980 کے عشرے کی سوزوکی مہران ہے جسے وہ بطور ٹیکسی چلا رہا ہے، اپنی اسی ٹیکسی کے قریب بیٹھ کر یاسر سلطان نے کہا کہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث میں سخت پریشان ہوچکا ہوں، بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ اپنی ٹیکسی کو آگ لگا دوں، وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ غربت ختم کر دیں گے، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کریں گے اور ملک کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنادیں گے۔ یاسر سلطان نے کہا کہ عمران خان نے غربت کو مٹانے کے بلندو بانگ دعوے کیے تھے، لیکن وہ غربت کونہیں بلکہ غریبوں کو مٹا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح گزشتہ 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس وقت پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 8.5 ارب ڈالر ہیں، یہ صورتحال رواں سال کے آغاز کی نسبت بہتر ہے، اس کے باوجود قابل اطمینان نہیں کیونکہ یہ ذخائر صرف 2 ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہوں گے۔ اسد سید نے جوکلیکٹو سکول فار سوشل سائنس ریسرچ سے بطور ماہر معاشیات وابستہ ہیں کہا کہ حکومت کے پاس ان حالات سے نکلنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ طلب میں ممکنہ حد تک کمی ہوجائے، کیونکہ اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی، انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ ( مارچ میں ) افراط زر کی شرح 9.4 فیصد تھی ،یہ شرح نومبر 2013 کے بعد بلند ترین تھی، سب سے زیادہ اضافہ توانائی اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ہوا، دونوں ہی اشیا کی قیمتیں صارفین کیلئے انتہائی حساس معاملہ ہیں۔ ادھر سٹیٹ بینک نے پیشگوئی کی ہے کہ رواں سال جون کے آخر تک اقتصادی افزائش کی شرح 3.5 فیصد سے 4 فیصد تک ہوگی، واضح رہے کہ حکومت کا ہدف 6.2 فیصد ہے۔ اسد سید نے مزید کہا کہ ملک میں بے روزگاروں کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے اجرتوں میں اضافے کیلئے کوئی دباؤ نہیں لیکن اس کی وجہ سے عوام کے معیار زندگی میں کمی ہو جائے گی۔
لاہور کی شہری سارہ سلمان نے کہا کہ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، میں نے اس نعرے پر یقین کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن اب میں اپنے اس اقدام پر پچھتا رہی ہوں۔ دریں اثنا گزشتہ ایک سال کے دوران روپے کی قدر میں ایک تہائی سے زیادہ کی کمی ہوچکی ہے، پاور سیکٹر میں جو پہلے ہی مسائل کا شکار ہے صورتحال زیادہ خراب ہے کیونکہ حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ اس شعبے میں دی جانے والے زر تلافی میں کمی کر دے، زر تلافی میں کمی کے نتیجے میں قیمتیں بڑھنے کا خطرہ ہوگا جو ظاہر ہے عوام کیلئے ایک بوجھ ہوگا، اب حکومت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ عام ( صارفین ) کو اس اضافی مالی بوجھ سے کیسے بچایا جائے، پیر کو متعلقہ حکام نے پٹرول کی قیمت میں فی لٹر 6 روپے کا اضافہ کر دیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ کر 98.88 روپے فی لٹر ہوگئی، یہ اضافہ عوام کیلئے مشکلات کا باعث ثابت ہوگا، بالخصوص مزدوروں کیلئے یہ اضافہ نہایت پریشان کن ہے کیونکہ ہنر مند مزدوروں کی روزانہ آمدنی صرف 1000 روپے سے 1300 روپے اور غیرہنر مند محنت کشوں کی آمدنی 600 سے 800 روپے روزانہ ہوتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے اب صارفین صرف انتہائی ضرورت کی اشیا ہی خریدا کریں گے، ٹاپ لائن سکیورٹیز کے چیف اکانومسٹ سعد ہاشمی نے کہا کہ اب مالیاتی اور اقتصادی منظر نامے اور راہ عمل کا انحصاراس بات پر ہوگا کہ حکومت توانائی کی قیمتوں میں کس حد تک ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کو توانائی کے شعبے میں پہلے خسارے کا تعین کرنا ہوگا اس کے بعدپیداواری لاگت کو پیش نظر رکھ کر آمدنی کی شرح مقرر کرنا ہوگی، انہوں نے اندیشہ ظا ہر کیا کہ چند ماہ میں افراط زر کی شرح بڑھ کر ڈبل ڈیجٹ ( 10 یا اس سے زیادہ ) میں آجائے گی ۔
دوست ممالک وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ آئندہ ماہ ( مئی ) تک آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہوسکتی ہے، یہ 1980 کی دہائی سے اب تک عالمی ادارے سے لیا جانے والا 13 واں بیل آؤٹ پیکیج ہے، حکومت کو امید ہے کہ یہ آئی ایم ایف سے آخری بیل آؤٹ پیکیج ہوگا، اس سلسلے میں ایک جانب پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین مذاکرات جاری ہیں تو دوسری جانب پاکستان نے چین سے بھی مدد طلب کرلی ہے جو 60 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے میں پاکستان کا شراکت دار ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب اور عرب امارات نے بھی 11 ارب ڈالر بطور قرض دینے کے علاوہ اس بات سے اتفاق کرلیا ہے کہ آئندہ مہینوں کے دوران موخر ادائیگی انتظام کے تحت پاکستان کو خام تیل فراہم کیا جائے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ درآمدات میں کمی یقینی بنانے کیلئے ملکی پروڈکشن میں اضافے کی کوشش کرر ہی ہے، اس کے علاوہ برآمدات میں اضافے کی کوششیں بھی جاری ہیں، پاکستان کی برآمدات کا انحصار روایتی طور پر ہمیشہ ٹیکسٹائل پر رہا لیکن اب نئی حکومت سپیشل اکنامک زونز بناکراور سرمایہ کاروں کو ترغیب دے کرمختلف اشیا کی برآمد بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت ٹیکس دائرے (Tax Base) کو وسعت دینے اور زیادہ ٹیکس وصول کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں اضافہ ناگزیر تھا، انہوں کہا کہ اچھا وقت آئے گا، تاہم مبصرین نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے اور غریبوں کو مسائل سے نجات دلانے کا وعدہ کیا تھا، اب اس کی جانب سے غیر واضح اور مبہم انداز میں مستقبل کے بارے باتیں پریشان کن ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کے بزنس ایڈیٹر خرم حسین نے کہا کہ حکمرانوں کو بہت تکلیف دہ اقتصادی اقدامات کرنا ہوں گے، یعنی ٹیکسز اور شرح سود زیادہ ہو لیکن سرکاری اخراجات، درآمدات کم کردی جائیں اور روپے کی قدر بھی گھٹادی جائے، انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں فلاحی نوعیت کے وعدوں کی تکمیل بہت مشکل ہوگی ۔ایک جانب اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ قیمتوں میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کر دے، لاہور کے ایک سکول ٹیچر محمد وقاص نے کہا کہ صارفین کے صبر کا پیمانہ چھلک ر ہا ہے ، قیمتوں میں اضافہ اور موجودہ حکومت کی پالیسیاں ‘‘ عوام کی توہین’’ کے مترادف ہیں، انہوں نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی ان مسائل کو حل نہیں کرسکتی تو اسے چاہیے کہ حکومت چھوڑ دے۔