لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اس وقت ملک کا بڑا مسئلہ معاشی صورتحال میں بہتری پیدا ہونے کے بجائے ابتری کا منظر ہے۔ جن لوگوں نے تحریک انصاف اور عمران خان کو ووٹ دیئے تھے ان کا خیال تھا کہ نئی حکومت واقعی نیا پاکستان او رنئی تبدیلی کے عمل کو یقینی بنائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان انتخابات میں جو بڑے بڑے دعوے کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کے پاس مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے ان کا اقتدار لوگوں کو خوشحالی دینے کے بجائے ان کے لیے وبال جان بن گیا۔
حالیہ دنوں میں پٹرول کی قیمتوں سمیت دیگر معاملات میں مہنگائی کا طوفان ظاہر کرتا ہے کہ اس حکومت کا مہنگائی جیسے معاملات پر کوئی کنٹرول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں مایوسی کا عمل بڑھ رہا ہے۔ اسد عمر جو عمران خان کی حکومت کی معاشی ٹیم کے کپتان ہیں ان کی کارکردگی کھل کر سامنے آگئی اور ان کے تمام تر عوامی ریلیف کے دعوے اب تک جھوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا اقتدار میں آنے سے قبل معاشی حوالے سے کوئی ہوم ورک نہیں تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے معاشی بہتر ی کے لیے جو بھی ٹاسک فورس بنائی تھیں اس سے کوئی مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔
دوسری جانب حکومتی جماعت کے اپنے اندر مختلف لوگوں میں موجود گروپ بندی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ شاہ محمو د قریشی او رجہانگیر ترین کے درمیان ہمیشہ سے ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی پالیسی سامنے آتی رہتی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں ابھی تک لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ عثمان بزدار کی بطو روزیر اعلیٰ تقرری کیوں کی گئی ہے۔ کیونکہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کی پالیسی اور وزیر اعلیٰ کی تقرری نے ان کی اپنی جماعت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں عثمان بزدار پر مسلسل تنقید بڑھ رہی ہے اور پارٹی پر دباؤ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان بدستور عثمان بزدار کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کے بقول عثمان بزدار وسیم اکرم پلس ہیں۔ کئی ارکان اسمبلی اور وزیر عثمان بزدار کے خلاف پس پردہ کام کررہے ہیں۔
گورنر پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی بھی یقینی طور پر پنجاب کی اقتدار کی سیاست کے اہم فریق ہیں او ران کی کوشش ہے کہ وہ اختیارات کے اس کھیل میں اپنی طاقت کو کمزور نہ کریں۔ اب بھی اگر وزیر اعظم عمران خان اسی بات پر بضد رہتے ہیں کہ ان کے اصل وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے تو اس بات کا خدشہ موجود رہے گا کہ اس کا نقصان خود عمران خان کی سیاست اور پارٹی کو بھی ہوگا۔ کیونکہ اگر وزیر اعظم پنجاب میں اپنی سیاست کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ان کو یقینی طور پر پنجاب میں ایک مضبوط وزیر اعلی درکار ہے، مگر لگتا ہے کہ عمران خان اتنی آسانی سے اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہونگے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم کا اپوزیشن جماعتوں کے خلاف رویہ بہت سخت نظر آتا ہے۔ وہ جلسوں میں براہ راست نواز شریف اور آصف زرداری کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ خاص طور پر نواز شریف کے بارے میں وہ اس تاثر کو جان بوجھ کر پیش کرتے ہیں کہ وہ حکومت سے ڈیل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم ان کو کسی ڈیل کا حصہ نہیں بننے دیں گے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون شریف خاندان کی جانب سے حکومت سے نواز شریف کے لیے ریلیف مانگ رہا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی ناکامی کے تاثر کو کمزو رکرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں پر دباؤ بڑھانا اور ڈیل کی باتیں کر کے لوگوں کو دیگر موضوعات میں الجھانا چاہتی ہے۔ ایسے میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت اپنا معاشی قبلہ درست نہیں کرتی تو اس کے مسائل اور زیادہ بڑھ جائیں گے اور ان برے حالات کی اصل ذمہ دار بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہی ہوگی۔