راولپنڈی: (ویب ڈیسک) وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اپنی رہائش گاہ لال حویلی کو یونیورسٹی کیلئے عطیہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک وقت تھا جب میں اس کے نیچے کتابیں بیچا کرتا تھا۔
لال حویلی کا شمار راولپنڈی کی اہم اور تاریخی عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ حویلی 100 سال سے زائد عرصہ پرانی ہے جو شہر کے مشہور بوہڑ بازار میں موجود ہے۔ اس کا نام سہگل حویلی تھا لیکن عمارت کے سرخ رنگ کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اسے لال حویلی پکارنے لگے۔
راولپنڈی کی یہ مشہور عمارت وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی رہائشگاہ ہے، جسے حال ہی میں انہوں نے یونیورسٹی کو عطیہ کرنے کا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے یہاں ہم اس لال حویلی کی تاریخ بتانے جا رہے ہیں۔
روایات ہیں کہ یہ لال حویلی محبت کے علامت ہوا کرتی تھی۔ اس حویلی کو شاہ راج سہگل نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی ایک رقاصہ باندھ بائی کے لئے تعمیر کیا تھا۔
ایک روایت اور مشہور ہے کہ شاہ راج سہگل کا تعلق جہلم کے ایک امیر ہندو خاندان سے تعلق تھا۔ اس کی سیالکوٹ کی اس رقاصہ سے ایک شادی کی تقریب میں ملاقات ہوئی جو پہلی ہی نظر میں محبت میں بدل گئی۔
کہتے ہیں کہ کچھ ہی عرصے بعد ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ شاہ راج سہگل سہگل اور باندھ بائی نے راولپنڈی میں سکونت اختیار کی اور یہاں یہ عمارت قائم کی جسے لال حویلی کہا جاتا ہے۔
شاہ راج سہگل نے یہ عمارت خاص طور پر اپنی محبوبہ اور اہلیہ باند بائی کیلئے تعمیر کروائی تھی جس کو شاندار بنانے کیلئے اس نے بے تحاشا پیسہ خرچ کیا۔
اس عمارت پر چاندی، پیتل اور مہنگی لڑکی سمیت دیگر دھاتوں کا استعمال کیا گیا۔ عمارت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس کا ایک حصہ مردوں کے لیے مخصوص جبکہ ایک حصہ خواتین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
روایت ہے کہ راج سہگل نے لال حویلی کے اندر باندھ بائی کے لئے ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی جبکہ اپنی عبادت کے لیے ایک مندر تعمیر کرایا تھا۔ 1947ء میں برصغیرکی تقسیم سےمحبت بھی تقسیم ہو گئی، راج سہگل کو ہندوستان جانا پڑا لیکن بدھاں بائی یہیں رہ گئیں۔
قیام پاکستان کے بعد یہ حویلی ایک مہاجر کشمیری خاندان کو الاٹ کی گئی اور شیخ رشید کے بقول اس کو ان کے خاندان نے پانچ لاکھ روپے میں خرید لیا تھا۔ یہ لال حویلی 1985ء سے ان کی ملکیت ہے۔