لاہور: (محمد حسن رضا) مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کی آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس سے عبوری ضمانت کے بعد نیب میں 3 پیشیاں ہوچکی ہیں جن میں وہ نیب کی کمبائن انویسٹی گیشن ٹیم کے سوالات کے جوابات تسلی بخش نہ دے سکے، جوابات نہ ملنے اور کئی اہم ریکارڈ نہ دینے سے متعلق نیب نے رپورٹ تیار کر لی، جسے آج ہائیکورٹ میں پیش کیا جائیگا جبکہ نیب حمزہ کی گرفتاری کی اجازت طلب اور ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا کریگا۔
ذرائع کے مطابق نیب نے آمدن اور اکاؤنٹس میں پیسے منتقل ہونے کے ذرائع بارے سوالات کئے، لیکن حمزہ شہباز پہلی پیشیوں پر یہ جوابات دیتے رہے جن سے متعلق سوالات ہیں ان سے ہی پوچھا جائے میں ان کے جوابات دینے کا پابند نہیں، جس کے بعد نیب کی جانب سے شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور ان کی صاحبزادیوں کو نوٹسز اور پھر سوالنامے بھجوائے گئے، اب حمزہ شہباز نے یہ بھی کہا ہے کہ بزنس کے معاملات سلمان شہباز شریف دیکھتے رہے ہیں ان سے متعلق وہ ہی جواب دے سکتے ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہواہے نیب کی جانب سے گزشتہ روز 13سوالات کئے گئے، جس میں پوچھا گیا بتایا جائے 2003 سے لیکر 2005 تک ان کے اکاؤنٹس میں جو پیسے منتقل ہوئے ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں ؟ لیکن وہ جواب نہ دے سکے۔ 25 جون 2007 کو حمزہ کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ 65 ہزار 980 ڈالر کی منتقلی سے متعلق سوال پر انہوں نے جواب دیا اس وقت یہ معاملات قانونی تھے۔ حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں مختلف ذرائع سے آنے والی رقوم کے جب ثبوت ان کے سامنے رکھے گئے اور متعلقہ افراد سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ان میں سے چند افراد ہمارے بزنس میں ہیں لیکن اس وقت میں پبلک آفس ہولڈر نہیں تھا۔ نیب نے مزید پوچھا اگر ان لوگوں نے سرمایہ کاری کی غرض سے پیسے دئیے تو اس کے عوض انہیں کیا ملا اور یہ رقوم کہاں گئیں، نیز کیا آپ فضل داد عباسی اور قاسم قیوم کو جانتے ہیں تو حمزہ نے جواب دیا کہ فضل داد عباسی ہمارے ملازم رہے ہیں لیکن اس حوالے سے میں زیادہ نہیں جانتا ہوں۔
نیب نے سوال کیا الزام ہے کہ جعلی کاغذوں میں رقم فرضی طورپر دبئی، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک جاتی تھی پھر ٹیلی گرافک ٹرانسفر یعنی ٹی ٹی کے ذریعے دوبارہ آپ کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوجاتی، جس پر انہوں نے حیرانگی سے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ پیسے میرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے، نیب کی ٹیم نے کہا جی آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے، حمزہ نے جواب دیا یہ کئی سال پرانی بات ہے، اس وقت ہمارے اوپر سیاسی طور پر بہت سارے معاملات چل رہے تھے، نیب نے سوال کیا پیسے آپ کے اکاؤنٹ میں کیوں اور کس مقصد کیلئے منتقل ہوئے، انہوں نے جواب دیا پیسے منتقل ہوئے ہیں لیکن کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، وہ پیسے منتقل ہونے کی وجوہات بتانے سے گریز کرتے رہے۔
نیب ٹیم نے سوال کیا آپ کے اکاؤنٹس میں کل 23 مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئیں، بھیجنے والوں کا آپ کے کاروبار سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ بڑے بزنس مین ہیں اس پر حمزہ نے کہا میں ابھی جواب نہیں دے سکتا۔ اکاؤنٹس میں منتقل ہونے والے 18 کروڑ روپے سے متعلق بھی انہوں نے کہا اس کی الگ تفصیلات ہیں جو اس وقت نہیں دے سکتا۔ حمزہ شہباز شریف سوالات کے جوابات میں یہ بھی کہتے رہے کہ ہمیں سیاسی طور پر نشانہ بنایا نہ جائے۔ نیب ٹیم نے 2003 سے لیکر 2017 تک کی ٹرانزیکشنز اور کئی اہم ریکارڈز حمزہ شہباز شریف کے سامنے بھی رکھے اور کئی اہم معلومات جو کہ نیب کے پاس موجود تھیں ان سے آگاہ کیا اس حوالے سے بھی حمزہ شہباز شریف تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور معاملات کو گول ہی کرتے رہے۔
اسی طرح ایک روز قبل جب حمزہ شہباز شریف کو چنیوٹ رمضان شوگر ملز کیس کے حوالے سے مزید ثبوت آنے پر طلب کیا گیا تھا تو وہ جوابات سے ٹیم کو مطمئن نہیں کر سکے تھے۔ قبل ازیں رمضان شوگر ملز کے حوالے سے نیب ٹیم نے حمزہ سے 23 سوالات کئے تھے جن کے تسلی بخش جوابات نہ مل سکے اور یہی کہتے رہے شوگر ملز کے تمام معاملات سلمان شہباز دیکھتے تھے۔ نیب ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ حمزہ شہباز سے تفصیلی سوالات کئے ہیں لیکن وہ جوابات نہ دیتے اور اگر دیتے تو اس کا سوال سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا تھا، کئی مبینہ فرنٹ مینوں کے نام ان کے سامنے رکھے گئے اور ان سے متعلق کئی سوالات بھی کئے لیکن حمزہ شہباز شریف ان کے بھی جوابات دینے میں ناکام رہے ہیں۔