لاہور: (محمد حسن رضا، عمر جاوید) تحریک انصاف کے دور حکومت میں تیسرا آئی جی پنجاب پولیس تبدیل کرنا پڑا، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے پیچھے کیا وجوہات تھیں ؟ روزنامہ دنیا کی تحقیقات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق نیب کی جانب سے حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے معاملے پر آئی جی پنجاب اور گجر پولیس افسروں کے مبینہ طور پر ن لیگ کے ساتھ رابطوں، حکومتی منصوبہ بندی، خفیہ پلان اور معلومات سے لیگی رہنماؤں کو قبل از وقت آگاہ کرنا اور نیب کے ساتھ تعاون نہ کرنا تبادلے کی بڑی وجہ بنی۔ تاہم جرائم کی شرح میں اضافہ، ممبران اسمبلی کے شدید تحفظات، پولیس اصلاحات کو جان بوجھ کر لٹکانا، کرپشن، بدانتظامی اور نااہل افسران کی اہم عہدوں پر تعیناتیاں بھی تبادلے کی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور گورنر پنجاب کے مابین اختلافات کے باعث گورنر پنجاب اپنے من پسند افسروں کو اہم عہدوں پر تعینات کرنا چاہتے تھے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے احکامات پر عملدرآمد کے بجائے امجد جاوید سلیمی کسی اور کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سانحہ ساہیوال میں حکومتی عہدیداروں خصوصاً وزیراعظم آفس کو غلط حقائق سے آگاہ کرنا اور اپنے گروپ کے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر کو بچانے کیلئے من گھڑت رپورٹ دینے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امجد جاوید سلیمی کو آئی جی تعینات کرانے میں گورنر چودھری محمد سرور کا ہاتھ تھا جس کے بعد چودھری سرور کے کہنے پر متعدد ڈی ایس پیز کے تبادلے بھی کئے جاتے رہے اور کئی اہم عہدوں پر تعیناتیاں بھی انہیں کے کہنے پر ہوئیں، لیکن یہ معاملہ یہاں تک نہیں رکا، گورنر پنجاب کی حد سے زیادہ مداخلت پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے بھی شدید اختلافات سامنے آئے لیکن مختلف اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس حوالے سے وزیراعظم کو مکمل حقائق سے آگاہ کیا جاتا رہا۔ ایک گروپ جس میں بتایا جاتا ہے کہ پولیس افسران شفیق گجر، بشیر احمد ناصر، فاروق مظہر، زعیم اور عظیم ارشد گجر سمیت دیگر شامل تھے۔ عظیم ارشد گجر، زعیم اور شفیق گجر کی لابی ہی ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب فضیل اصغر کو لیکر آئی تھی اور ان کی تعیناتی کے بعد معاملات مزید خراب ہونے لگے ، یہاں تک کہ فضیل اصغر پر جہاں آئی جی پنجاب کے ساتھ ملکر حمزہ شہباز شریف کے معاملہ میں اپنے فرائض کے مبینہ طور پر غلط استعمال کرنے کا الزام ہے وہاں آئی جی پنجاب سمیت دیگر افسر بھی انکے دست راست تھے۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ڈی ایس پیز سے متعلق یہ بھی رپورٹس اعلی حکومتی عہدیدار کو پہنچی تھی کہ کچھ تبادلوں سے تقریبا 14 کروڑ روپے سے زائد اکٹھے کئے گئے ہیں جس پر آئی جی پنجاب نے معاملات کو دباتے ہوئے اپنے ہی گروپ کے کچھ افسروں کو سائیڈ لائن کر دیا اور کچھ کو پنجاب سے سرنڈر کرتے ہوئے وفاق میں واپس بھجوا دیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کچھ تبادلوں کے معاملات پر عظیم ارشد اور آئی جی پنجاب کے درمیان لڑائی بھی ہوئی تھی جس پر بشیر احمد گجر نے صلح کرائی تھی۔ آئی بی میں تعینات ایک اعلیٰ افسر کے بھی ان سے مکمل تعاون کا بتایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے معاملہ میں سابق آئی جی پنجا ب امجد جاوید سلیمی، سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ فضیل اصغر، انٹیلی جنس بیورو کے ایک افسر اور شفیق گجر سمیت 7 افسر مسلم لیگ ن کے اہم عہدیداروں سے مسلسل رابطے میں تھے، ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ بعض ایسے افسران جو کہ اہم عہدوں پر تعینات تھے وہ کئی اندرونی معاملات اور کہانیاں جو کہ حکومت میں چل رہی تھیں ان سے حمزہ شہباز شریف سمیت دیگر اہم عہدیداروں کو آگاہ کرتے تھے، جس سے متعلق اہم رپورٹ اعلی حکومتی عہدیداروں کو بھی بھجوائی گئی ہے، اسی طرح ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ امجد جاوید سلیمی سے متعلق 10 اپریل کو ہی فیصلہ ہو چکا تھا جس کے بعد امجد جاوید سلیمی کی جانب سے گورنر پنجاب سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن چودھری سرور اس وقت امریکہ میں ہیں تو شاید ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔
اس حوالے سے بعض حکومتی وزراء نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ عمران خان صاحب کو یہ نظر آ رہا تھا کہ اس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں شاید پنجاب پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور اب مزید تبادلے بھی متوقع ہیں۔ آئی جی پنجاب عارف نواز کی تبدیلی کے بعد پنجاب کے تمام بڑے ریجنز کے آر پی اوز، سی سی پی اوز، ڈی پی اوز، ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز اور ایس پیز کو تبدیل کئے جانے کا امکان ہے، سی سی پی او لاہور بشیر احمد ناصر، ڈی آئی جی آپریشن لاہور وقاص نذیر، چار آر پی اوز اور متعدد ایس پیز کو تبدیل کرنے سے متعلق فہرست تیار کر لی گئی ہے، سی سی پی او لاہور کے لئے ایڈیشنل آئی جی رینک کے تین افسران کے نام شارٹ لسٹ کئے گئے ہیں، اسی طرح ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو ممکنہ طور پر آر پی او سرگودھا یا آر پی او ڈی جی خان تعینات کیا جاسکتا ہے جبکہ خرم علی شاہ کا نام ڈی آئی جی آپریشنز کے لئے زیر غور ہے، ایسے ایس پیز جن سے متعلق ایم پی ایز اور ایم این ایز نے شکایات وزیراعلیٰ آفس میں درج کرا رکھی ہیں یا ان سے متعلق مختلف اداروں کی جانب سے رپورٹس اعلی حکام کو بھجوائی گئی ہیں کہ وہ حکومت کے وژن کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں اور ان کی ناقص حکمت عملی کے باعث جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، ایسے افسران کو یا تو پنجاب سے سرنڈر کر دیا جائے گا یا پھر انہیں پنجاب میں کھڈے لائن لگا دیا جائے گا۔