لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) شہباز شریف فیملی پر منی لانڈرنگ کے الزامات چھائے ہوئے ہیں، اب سے کچھ عرصہ پہلے جب ان کے خاندان کے حوالے سے نیب میں ان کے خلاف تحقیقات یا الزامات کا ذکر ہوتا تھا تو اس کا فوکس عموماً صاف پانی کیس، آشیانہ سکینڈل اور پنجاب حکومت سے منسلک دوسرے معاملات ہوتے تھے لیکن حالیہ 2 دنوں میں معاملات نے ایک اہم اور شاید فیصلہ کن کروٹ لی ہے۔ نیب نے شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کے آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کو آگے بڑھایا ہے۔
لگتا ہے کہ نیب کے تحقیقات کاروں کو ایک بڑا بریک تھرو ملا ہے جس کا تعلق ان معاملات سے ہے جو بظاہر مشکوک لگتے ہیں اور جن کے ذریعے بیرون ملک سے ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔ ٹی ٹی کے ذریعے حمزہ شہباز، سلمان شہباز اور شہباز شریف فیملی کے دوسرے افراد کے نام رقوم ٹرانسفر ہوئی ہیں۔ بیرون ملک سے مشکوک افراد نے لاکھوں ڈالر ان شخصیات کے اکاؤنٹس میں بھیجے جو بعد ازاں یہاں کاروبار اور دیگر معاملات میں لگائے گئے۔ نیب میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں جن سے واضح ہوا ہے کہ یہ لوگ در اصل کچھ مبینہ شخصیات کے ذریعے مبینہ طور پر کک بیک اور کمیشن کے پیسے ڈالر میں ٹرانسفر کرتے تھے، انہیں بیرون ملک بھیجا جاتا تھا اور مبینہ طور پر اس کا کچھ حصہ پاکستان واپس لایا جاتا تھا۔ بادی النظر میں یہ اس کیس سے مماثلت رکھتا ہے جو سندھ میں نظر آیا اور یہ وہی الزامات ہیں جو زرداری، اومنی گروپ پر لگے ہیں۔ اس حوالے سے نیب تقریباً تین درجن ریفرنس آئندہ چند ہفتوں میں داخل کرے گا۔
یاد رہے کہ سندھ میں 11 سال تک پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں 11 سال تک مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ شہباز شریف بلا شرکت غیرے دس سال تک پنجاب کے حکمران رہے۔ ذرائع کے مطابق مختلف لوگ بیرون ملک سے حمزہ شہباز کے نام پر ٹی ٹی سے بھاری رقوم بھجواتے رہے اور مبینہ طور پر اب تک 26 ملین ڈالر یعنی 3 ارب 90 کروڑ روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ حمزہ شہباز، سلمان شہباز ان کی بہن جویریا شہباز، شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کے نام پر برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، ہانگ کانگ اور عرب امارات سے ریمیٹنس آئی ہیں۔ تحقیقات کے دوران یہ حیران کن بات سامنے آئی تھی کہ شہباز فیملی کو ترسیلات بھیجنے والے کچھ افراد کبھی بیرون ملک نہیں گئے، یہ ترسیلات ان لوگھوں نے بھیجیں جو پاکستان ہی میں موجود تھے، ترسیلات بھیجنے والوں کے اتنی رقوم بھیجنے کے وسائل ہی نہیں تھے اس وجہ سے تحقیقات کار سمجھتے ہیں کہ یہ سارا جعلی معاملہ تھا اور منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔
میزبان پروگرام کا کہنا ہے کہ دس سال تک پنجاب میں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کا سکہ چلتا تھا یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ سب سے اہم رول سلمان شہباز کا تھا جو بظاہر شہباز فیملی کے کاروباری معاملات اور ان کے شکر اور دودھ کے کارخانوں اور چکن فیڈ کے معاملات کو دیکھتے تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ مفادات کے ٹکراؤ کا کیس تھا، ایک جانب ان کی حکومت تھی، دوسری جانب وہ کاروبار بھی کرتے تھے اور پھر پنجاب میں جس نے بھی سرمایہ کاری کرنی ہویا کوئی بھی کاروبار کرنا ہو اسے سلمان شہباز سے ملنا پڑتا تھا۔ سلمان شہباز کے تمام بڑے بزنس گروپوں سے رابطے تھے۔ براہ راست ان کے مفادات کے حوالے سے بات چیت ہوتی تھی، وہ اپنے بڑوں سے ان کی ملاقات کراتے تھے اور حکومت کے کرتا دھرتا ان کے اشارے پر ان بزنس گروپوں کے ساتھ معاملات نمٹاتے تھے۔ ان کا بے پناہ اثرو رسوخ تھا۔ سلمان شہباز کا ایک قدم چین میں ہوتا تھا جہاں پاکستان اور سی پیک کے حوالے سے اربو ں ڈالر کے منصوبے چل رہے ہیں اور ان کا بڑا حصہ پنجاب میں آنا تھا، تو کبھی وہ جرمنی میں ہوتے تھے اکثر لندن میں ہوتے تھے، وہ متحرک ترین کاروباری، سیاسی اور حکومتی شخصیت تھے جو پردے کے پیچھے رہتے تھے لیکن ان کا اثر بے پناہ ہوا کرتا تھا۔ یہ اومنی سٹائل کا معاملہ ہے اور دیکھنا ہے کہ یہ کہاں جاکر انجام پذیر ہوتا ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2007 میں اومنی گروپ کی صرف 3 کمپنیاں تھیں اور 2018 میں اومنی گروپ کی کمپنیاں 90 سے تجاوز کرگئیں۔ اسی طرح سلمان شہباز پنجاب میں شہباز شریف فیملی کے انور مجید ہیں، ان کی دولت میں 85 گنا اضافہ ہوا ہے، سلمان شہباز کے 2003 میں اثاثے 21 ہزار روپے تھے، اب سلمان شہباز کے اثاثے 3 ارب روپے سے زائد ہیں، شہباز شریف، حمزہ اور سلمان شہباز کے اثاثوں کی وجہ ترسیلات زر ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ استعمال کئے گئے ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری جعلی ترسیلات سے کی گئی ہے۔ شہباز شریف کا ذریعہ آمدن بطور وزیر اعلیٰ تنخواہ تھی جو وہ عطیہ کر دیتے تھے اس کے باوجود اپنی دوسری اہلیہ کو لاہور میں گھر خرید کر دیا، یہ پیسے کہاں سے آئے؟۔