اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کیلئے نظرثانی درخواست مسترد کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رہائی علاج کیلئے دی تھی، ٹیسٹوں پر ضائع کر دی، معلوم نہیں ہر چیز کو سیاسی رنگ کیوں دیا جاتا ہے، ہر بات پر عدالت کی تضحیک کی کوشش کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نواز شریف کی نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں نے کہا تھا 8 ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس بھی جمع کرائی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرسکتے، نواز شریف کی بیماری کا ڈاکٹرز ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا سپریم کورٹ نے 8 ہفتے کی ضمانت دی تھی، یہ میری ابتدائی استدعا تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نظرثانی درخواست پر دلائل دیں، پہلے درخواست دیکھتے ہیں، آرڈر پر نظرثانی بنتی بھی ہے یا نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا فیصلہ کہتا ہے گرفتاری کے بغیر ضمانت توسیع کی درخواست نہیں دی جاسکتی، فیصلہ زبانی سنایا گیا، تبدیلی فریقین کو سنے بغیر نہیں ہوسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا دستخط سے قبل عدالت تحریری فیصلے کو بھی بدل سکتی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آج آپ کے لیے تمام راستے کھلے ہیں، 6 ہفتوں کے بعد آپ کے لیے تمام آپشنز موجود ہیں، یہ پورا پیکج ہے جو آپ کو ملا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا فیصلے سے قبل جو کچھ کہا گیا وہ عدالتی آبزرویشن تھی۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا موکل ضمانت میں توسیع چاہتے ہیں، ابھی ان کی صحت ایسی نہیں کہ جیل جاسکیں، صحت کو دیکھا جائے تو موکل جیل نہیں جاسکتے، نواز شریف کا علاج جاری ہے، ان کی بیماری بڑھ چکی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضمانت پر جانے سے تو نوازشریف کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا اچھے ڈاکٹرز، جدید مشینیں موجود ہیں کیسے معلوم ہوا کہ پاکستان میں علاج ممکن نہیں، آپ نے درخواست ضمانت میں میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کی تھی، میڈیکل بورڈ نے انجیو گرافی کو لازمی قرار دیا تھا، اسی وجہ سے ہم نے آپ کو ضمانت دی، اب کہتے ہے کہ ملک میں علاج ممکن نہیں، آپ اپنی ہی پہلی درخواست سے باہر چلے گئے۔ خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی کلوٹیٹ آٹری 50 فیصد بڑھ چکی ہے یہ بہت ہی خطرناک ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جن ڈاکٹرز کی رائے آپ بتا رہے ہے انھوں نے حتمی بات نہیں کی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا دنیا میں انجیو گرافی کے متبادل کارڈیک ایم آر آئی کی جاتی ہے، پاکستان میں کارڈیک کی ایم آر آئی ممکن نہیں، کارڈیک ایم آر آئی سے متعلق ہمیں کسی ہسپتال نے جواب نہیں دیا سوائے آغا خان کے، آغا خان نے بھی یہی کہا کہ کارڈیک ایم آر آئی پاکستان میں دستیاب نہیں۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 6 ہفتے کے لئے ضمانت منظور کی تھی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا نواز شریف ملک نہیں چھوڑ سکے، وہ 6 ہفتے میں اپنی مرضی کا علاج کرا سکیں گے، نواز شریف 6 ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، سرنڈر نہ کرنے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
واضح رہے 8 ستمبر 2017 کو نواز شریف اور ان کے بچوں کیخلاف العزیزیہ، فلیگ شپ، ایون فیلڈ ریفرنسز دائر ہوئے، 19 اکتوبر 2017 کو العزیزیہ اور 20 اکتوبر کو فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7، محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا ہوئی۔ ستمبر 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں تینوں کی سزاؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا ہوئی، عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا تھا۔