لاہور: (روزنامہ دنیا) معروف تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ قبائلی علاقے بڑے حساس نوعیت کے ہیں، ان کی بڑی تاریخ ہے، اس لئے ہمیں کوئی لیبل چسپاں کرنے سے پہلے احتیاط برتنی چاہئے۔
پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہمیں احساس ہونا چاہئے کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں فوج نے بڑی قربانیاں دیکر امن قائم کیا لیکن اس کے بعد اگر وہاں گڑبڑ یا بے چینی ہو تو اس پر بڑے لیول پر نوٹس لینا چاہئے۔ ایسی بے چینی وہاں پر ہونی نہیں چاہئے۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا ہے کہ حکومت پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ریاست کو کسی صورت چیلنج نہیں کیا جاسکتا، ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہئے تاکہ حالات مزید بگڑنے نہ پائیں۔ حکومت پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ریاست کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقے انضمام سے قبل واقعی دہشت گردی کا گڑھ تھے اور فوج نے اس علاقے میں امن و امان بحال کیا لیکن اس وقت یہ گروپ کہاں تھا ؟ جب یہاں طالبان ظلم وستم کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیانات افغان حکومت اور ہندوستان کی حکومت سے ملتے ہیں جس سے شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہئے تاکہ حالات مزید بگڑنے نہ پائیں۔
سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ خدا کیلئے خوف کریں، یہ بہت بڑی گیم ہے، بلوچستان سے لیکر فاٹا تک شہادتیں ہی شہادتیں ہیں، کامیابیاں ہضم نہیں ہو رہیں۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان آچکا ہے کہ شرپسندوں کی طرف سے حملہ ہوا جس میں پانچ جوان زخمی ہوئے لیکن اس وقت ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر کہا جا رہا ہے کہ مبینہ حملہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارا وزیر اعظم پٹھان، وزیر دفاع پٹھان اور آدھی سے زیادہ کابینہ پٹھانوں پر مشتمل ہے تو اس کے باوجود پٹھان کہنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اگر حالات خراب ہیں تو کچھ علاقے میں ہیں۔