لاہور: (روزنامہ دنیا) مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل میں سینیٹ چیئرمین کے لئے میر حاصل بزنجو کی نامزدگی کا فیصلہ کیا جس کے بعد باقاعدہ اعلان ہو گیا ہے کہ صادق سنجرانی کی جگہ حزب اختلاف کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کی بنیاد پر میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرا دے۔ حزب اختلاف اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کرائے۔ بہت بڑی خبر ہو گی اور حکومت کے لئے شاید اس میں پریشانی کا بھی سامان ہو۔
میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق اس فیصلے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں پہلی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی نئی لیڈر شپ نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا، اس سلسلے میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی براہ راست مشاورت بھی ہوئی اور اس فیصلے پر ان دونوں شخصیات کا کلیدی کردار رہا ہے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد دو روز پہلے جمع ہو چکی ہے، قواعد کے مطابق سات دن کے اندر سینیٹ کا اجلاس بلایا جائے گا یعنی آئندہ منگل تک اجلاس بلانا ہو گا، اس اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ نہیں کریں گے کیونکہ قرارداد ان کے خلاف ہے۔ عہدے سے ہٹانے کے لئے قرارداد پر رائے شماری خفیہ ہو گی۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے پاس 66 اور حکومت کے پاس 37 سینیٹرز موجود ہیں اس حساب سے دیکھیں تو حکومت کسی صورت صادق سنجرانی کو نہیں بچا سکتی لیکن وہ مضبوط انداز سے صادق سنجرانی کے پیچھے کھڑی ہے۔ صادق سنجرانی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے جس میں انھوں نے اپوزیشن کی تحریک سے متعلق مشاورت کی ہے۔ وزیر اعظم نے چیئرمین سینیٹ کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
میزبان نے بتایا کہ اسی دوران یہ خبریں آرہی ہیں کہ پس منظر میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک پس منظر میں کردار ادا کر رہے ہیں ان کی خواہش یہ ہے کہ آصف زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے حوالے سے جو سختی ہے اس میں کچھ کمی آسکے۔ یہ تمام باتیں فی الحال ابتدائی نوعیت کی ہیں لیکن کچھ نہ کچھ بات چیت چل رہی ہے۔ یہ بھی بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر صادق سنجرانی کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے، اسی نے 2 مارچ 2018 کو صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی، 12 مارچ کے انتخاب میں سنجرانی نے 57 ووٹ لئے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈی والا 53 ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنے تھے۔ اس دوران مسلسل یہ گفتگو ہوتی رہی تھی کہ اس میں متحرک، فیصلہ کن کردار ان قوتوں کا تھا جو پارلیمنٹ میں شامل نہیں تھیں۔
میزبان کے مطابق اب سینیٹ آف پاکستان میں بلاول بھٹو مٹھائی کس کو کھلائیں گے اور کیا ماحول بنے گا، اس حوالے سے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹر شیری رحمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی بینچوں کیطرف سے دانستہ طور پر یہ ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے کہ اپوزیشن ارکان حکومت سے رابطے میں ہیں اور حکومت ووٹ توڑ لے گی یا پس پردہ جوڑ توڑ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے سر عام کہا ہے کہ عدم اعتماد کی یہ تحریک ناکام بنا دیں گے۔ میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ کس طرح ناکام بنائیں گے کہ اپوزیشن کے پاس 65 سے زائد سینیٹرز موجود ہیں اس کا مطلب ہے وزیر اعظم ہارس ٹریڈنگ کی بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک سوال پر کہا میرے علم میں رحمن ملک کا کوئی بیک چینل نہیں، وہ ہمارے سینیٹر ہیں ہماری سیاسی قیادت نے جو فیصلہ کیا ہے، ہم سب اس کے تابع ہیں۔