لاہور: (امتیازگل) پاکستان کو ایک بار پھر اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب عالمی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات نے بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام سے ذخائر کی تلاش کا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے پر ٹیتھیان کاپر (ٹی ٹی سی) کو 5.976 ارب ڈالر زر تلافی ادا کرنے کا حکم دیدیا۔ اس میں 4.08 ارب ڈالر جرمانہ اور 1.87 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنا ہوگا۔ ٹی ٹی سی نے پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے پہاڑوں میں معدنیات تلاش کرنے کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ آج وہ پہاڑی علاقہ جہاں معدنیات تلاش کی جانی تھیں بالکل بے آباد پڑے ہیں۔ اس اقدام نے بلوچستان کی اکانومی کو ہزاروں ملازمتوں اور بہت بڑے ریونیو سے محروم کر دیا۔
اس سے صرف ایک روز قبل یعنی 12 جولائی کو لندن کی عالمی ثالثی عدالت نے نیب کی طرف سے براڈشیٹ کے ساتھ 2003ء میں کیا گیا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے پر پاکستان کو 33 ملین ڈالر جرمانہ کیا تھا۔ 26 دسمبر 2018ء کو عدالت نے اس معاملے میں 21 ملین ڈالر زر تلافی ادا کرنے کے لئے کہا تھا۔ پاکستان کے کوتاہ بین حکام نے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا اور نظرثانی کی درخواست پر فیصلے کے بعد اس رقم کا حجم بڑھ کر 33 ملین ڈالر ہو گیا۔ جبکہ نیب کے دفاع کے لئے جس قانونی فرم کی خدمات حاصل کی گئیں اس کو 5 ملین پاؤنڈز بھی ادا کئے گئے۔
قبل ازیں 22 اگست 2017ء کو عالمی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات نے ترک کمپنی کار کے کی طرف سے درخواست پر پاکستان کو اسے 846 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ سمندر میں کھڑے جہازوں پر نصب پاور پلانٹس سے بجلی پیدا کرنے کا متنازع معاہدہ پی پی حکومت نے 2009ء میں کیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ختم کر دیا۔ اس جرمانے میں ہرجانے کے ساتھ ساتھ ہر ماہ 5.6 ملین ڈالر سود بھی شامل تھا۔ سنٹر برائے ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ‘‘سپریم کورٹ کی طرف سے 4 کیسز ریکوڈک، پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور کار کے الیکٹرک میں مداخلت سے پاکستان کو 12 کھرب سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اس میں تازہ ترین ریکوڈک اور براڈشیٹ کیسز میں عائد جرمانے بھی شامل ہیں۔ اگر پی آئی اے، سٹیل ملز، پاور پلانٹس کے قرضوں اور آپریشنل اخراجات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ افتخارچودھری کے دور سے شروع ہونے والی بے انتہا عدالتی فعالیت کی بھاری قیمت ہے۔ کریمنل جسٹس سسٹم جسے با اثر افراد اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں جو غیر معمولی تاخیرکا سبب بنتا ہے، نے اس ملک کو مجموعی طور پر 13 کھرب کا نقصان پہنچایا۔ مثال کے طور پر سند ھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر التوا ٹیکس کیسز کا حجم 1200 ارب روپے ہے۔ کمشنرز ان لینڈ ریونیو کے پاکستان زیر التوا کیسز کا حجم 250 ارب روپے ہے۔ یہ ریاست کا وہ پیسہ ہے جو بار اور بینچ کے درمیان ملی بھگت کے سبب پھنسا ہوا ہے۔
اپنے جسٹس سسٹم کو بہتر کر کے ان کیسز پر توجہ دینے کے بجائے سپریم کورٹ کے سابق ججز عوامی طور پر مقبول معاملا ت میں پھنسے رہے۔ اس سے ان کو تو شہرت مل گئی لیکن ملک بہت بڑے ریونیو سے محروم ہوگیا۔ تاہم صرف عدالتی فعالیت ہی نہیں بلکہ صاحبان اقتدار، صدر، وزیراعظم، اداروں کے سربراہان کے صوابدیدی فیصلے، اعلیٰ عدلیہ کے کوتاہ بین فیصلے اور مضمر نتائج کے حوالے سے بے خبری کی وجہ سے پاکستان (جیسا کہ دسمبر2018ء میں ہوا) عالمی فورمز میں 3 درجن سے زائد کیسزمیں پھنسا ہوا ہے۔ ان کیسز میں آئی پی پیز کی طرف سے ایک ٹریلین کے واجبات کی ادائیگی کیلئے دائر کیس بھی شامل ہیں۔ حکومت، عدلیہ، قانونی برادری اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ دماغوں کیلئے یہی عرض ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا براہ راست تعلق ملک کے نظام اور اس کے چلانے والوں سے ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے بڑے فیصلہ ساز اپنے من پسند فیصلوں کے ساتھ لندن، نیویارک، آسٹریلیا یا کسی اور ملک میں بیٹھے ہوں لیکن اس کی قیمت آخر ملک کے امیج اور عوام کے مفادات کو ادا کرنا پڑتی ہے۔