لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ ) سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کی باز گشت ایک بار پھر بڑے زور شور سے شروع ہو گئی، کراچی میں گندگی کے ڈھیر اور صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی صورتحال، پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان اور پچھلے 11 سال کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت میں کرپشن کے انکشافات کے بعد نئے امکانات سامنے آرہے ہیں، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے مستقبل پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا دھڑن تختہ کرنے اور سندھ میں فارورڈ بلاک بنانے کی سرگرمی تیز ہو گئی۔
اطلاعات کے مطابق اہم حلقوں سے پیپلز پارٹی کے 15 سے 20 ارکان سندھ اسمبلی میں فارورڈ بلاک تشکیل دینے کے لئے رابطے میں ہیں، پارٹی کے اندر بغاوت کی ہوا چلنا شروع ہو گئی، اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نادر مگسی نے پیپلز پارٹی کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) کے سب سے زیادہ سرگرم رہنما سردار علی گوہر خان سے ملاقات کی ہے جس کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اس وقت سخت دباؤ میں ہیں۔ ان کو ایک طرف دہری شہریت کے ڈیکلیریشن کے حوالے سے نا اہلی کے کیس کا سامنا ہے، دوسری طرف جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ پر بے تحاشا سرکاری خزانہ لٹانے کے الزامات کی گرفت میں بھی ہیں، ایسے میں صوبائی حکومت کو گرائے جانے کے امکانات نے مراد علی شاہ کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مراد علی شاہ اس تناؤ کی کیفیت کو میڈیا کے سامنے رکھ چکے ہیں اور یہ اقرار کر چکے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن پارٹی سے بے وفائی کرنے والے کامیاب نہیں ہوں گے یعنی تحریک انصاف سندھ میں تبدیلی کے لئے کلیدی فیصلہ کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی کو سندھ اسمبلی میں اہداف حاصل کرنے کے لئے کوئی بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑے گی اس وقت سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس 99 ارکان ہیں، تحریک انصاف کی 30 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم کی 21 نشستیں، جی ڈی اے کے 14 ارکان ہیں، تحریک لبیک کی 3 نشستیں اور ایم ایم اے کی ایک سیٹ ہے، سندھ اسمبلی کے 168 کے ایوان میں سادہ اکثریت کے لئے 85 راکین چاہئیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس 99 نشستیں ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 69 سیٹیں ہیں، ان ہاؤس تبدیلی یا فارورڈ بلاک کے لئے اپوزیشن کو 16 اراکین کی ضرورت ہو گی۔ میزبان کے مطابق خطرے کی گھنٹی بجا دینے والے یہ اعداد و شمار ہیں اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بظاہر مطمئن ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ سندھ حکومت ہٹا کے دکھائیں، لیکن وہ بظاہر کتنے ہی مطمئن ہوں اور بے فکری کا منظر پیش کریں لیکن حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو درپیش ان کثیر طرفہ چیلنجز میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس وقت نیب کیسز کے الزام میں جکڑے ہوئے پیپلز پارٹی کے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور شرجیل میمن کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں، شرجیل میمن کو نیب کیسز کے دوران میں ڈھیل ملنے پر مختلف قیاس آرائیاں بھی خالی خولی نہیں ہیں۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے منحرف رہنماؤں میں ذوالفقار مرزا کے بعد اگلا نام بھی زرداری کے قریبی آغا سراج درانی کا ہوسکتا ہے، جس طرح سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن کے 14 ارکان کے ضمیر جاگے تھے، اسی طرح پی پی کی سندھ حکومت کے خاتمے کے لئے پیپلز پارٹی کے تقریباً ڈیڑھ درجن ارکان سندھ اسمبلی کا ضمیر بھی جاگ سکتا ہے یا فارورڈ بلاک بن سکتا ہے جبکہ فارورڈ بلاک یا عددی اکثریت کو ٹھوس انداز میں پردہ داری کے ساتھ پیش کرنے کا ایک آسان طریقہ آئین میں موجود ہے جس کے تحت سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے جس کے ذریعے خفیہ رائے شماری ہو گی اور اس کی بدولت سندھ اسمبلی میں اصل گنتی سامنے لائی جاسکتی ہے جس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے از خود استعفیٰ کے مطالبات انہونی بات نہیں ہوں گے۔ دنیا نیوز کے نمائندہ خصوصی اختیار کھوکھر نے اس حوالے سے بتایا کہ سندھ میں ٹھوس سرگرمی ہو رہی ہے اطلاعات کے مطابق 15 سے 20 اراکین اسمبلی تیار ہو گئے ہیں جبکہ اپوزیشن کے لوگ 30 ارکان کا دعویٰ کر رہے ہیں، ان میں کچھ وہ لوگ ہیں جو ہر حکومت کے دور میں فائدے لیتے رہے ہیں دوسرے ارکان کی بڑی اکثریت احساس محرومی کا شکار ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ ہفتے 8 ارکان سے الگ الگ ملاقات کی ہے۔
انہوں نے کہا علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ نے سپیکر آغا سراج درانی سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کی ،نادر مگسی سے ا ن کے گھر جا کر ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کی ہے، یہ ساری سرگرمیاں بتا رہی ہیں کہ معاملہ بہت سنگین ہے اور آنے والے دنوں میں یقیناً کچھ ہونے والا ہے ایک آپشن آغا سراج درانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا ہے۔ ہماری اطلاعات ہیں کہ مراد علی شاہ کی گرفتاری کا امکان ہے اور اس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی، اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکین شو آف ہینڈ کیلئے تیار ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے کہا کہ نادر مگسی اور علی گوہر مہر کی ملاقاتوں کے حوالے سے ہمیں کوئی تشویش نہیں ہے یہ ایک معمول کی ملاقات ہے، ان اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد فارورڈ بلاک 51 فیصد کا ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی پر برے حالات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیر اعلیٰ تبدیل ہو رہے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف ووٹ دے گا تو وہ تا حیات نا اہل ہوجائے گا۔ کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنے گا۔ پہلے دن سے ہماری حکومت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، شیخ رشید اس حوالے سے تاریخیں بھی دیتے رہے ہیں۔