لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خطاب کو خطہ میں پیدا شدہ صورتحال، سلگتے ہوئے کشمیر ایشو، دہشت گردی کے رجحان اور خصوصاً مقبوضہ وادی کے اندر پیدا شدہ صورتحال کے حوالے سے موثر، جامع، جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکتا ہے اور یقیناً اس تقریر کے اثرات عالمی اور علاقائی صورتحال پر ہوں گے اور دنیا کو بحر حال یہ سوچنا پڑے گا کہ آخر کیونکر کشمیر جیسے اہم ایشو کے حل کیلئے پیش رفت نہ ہو سکی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وزیراعظم عمران خان کو ایک ایسے وزیراعظم کے طور پر دیکھا جائے گا جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اقوام متحدہ میں ایک تاریخی تاثر قائم کیا، وہ کشمیر ایشو، اس کے اثرات کے حوالے سے یکسو بھی تھے، سنجیدہ بھی اور انہوں نے خاص طور پر مقبوضہ وادی کے اندر پیدا شدہ صورتحال کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے مہذب معاشروں کو خوب جھنجھوڑا۔
ایک طرف انہوں نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا تو دوسری طرف مہذب اقوام پر چارج شیٹ دی کہ انہوں نے اس مسئلہ کے حل کیلئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا اور اپنے کئے ہوئے وعدوں سے خود مکر گئے۔ انہوں نے عالمی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا یہ ہم نہیں تھے بلکہ اقوام متحدہ کے فورم تھے جہاں سے گیارہ مرتبہ قراردادوں کے ذریعے انہیں حق خود ارادیت دینے کے وعدے کئے گئے۔ کشمیری آج ان عالمی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، ان کے خیالات، ان کی جماعت اور ان کی حکومت کا اصل چہرہ اور نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا یہ جماعت اور نریندر مودی ہندوستان اور کشمیر میں مسلم کش فسادات کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور کشمیر کے اندر غاصبانہ قبضہ کے بعد 55 روز سے انہوں نے کشمیر قید خانہ میں بدل رکھا ہے اور بڑے فکر کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کا علمبردار مغرب اس پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام عالم سے سوال کیا کہ اگر 8 ہزار یہودی اور 80 امریکی یا اتنی تعداد کے یورپین کو 55 روز کیلئے گھروں میں جانوروں کی طرح قید کر دیا جائے تو کیا وہ خاموش رہیں گے ؟ وزیراعظم عمران خان نے جرأت مندانہ انداز میں نریندر مودی کو ہٹلر ثابت کرتے ہوئے کہا اس کی اصل قوت آر ایس ایس کی نازی پارٹی سے تشبیہ دی اور کہا اس مائنڈ سیٹ کے ذریعہ یہاں امن قائم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے عالمی قوتوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کیا جب کرفیو ختم ہوگا تو کشمیریوں سے کیا سلوک ہوگا، پھر جب کشمیری رد عمل کیلئے باہر نکلیں گے تو ان کا خون بہے گا ذمہ داری کس پر ہوگی، کیا پھر بھی دنیا خاموش رہے گی ؟ انہوں نے روایتی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا یہ جب شروع ہوگی تو اپنے سے سات گنا بڑے ملک سے مقابلہ کیلئے پاکستان کے پاس کیا آپشن ہوگا یہ دنیا کے سوچنے کی بات ہے۔ کیونکہ پاکستانی تو خون کے آخری قطرے تک اپنا دفاع کریں گے اور اپنے سے سات گنا بڑے دشمن سے ٹکرانے کیلئے آخری حد تک جائیں گے تو پھر دنیا کو یہ سوچنا پڑے گا کہ پاکستان اور بھارت ٹکرائیں گے تو اس کے اثرات ان کی سرحدوں سے باہر نکلیں گے تو پھر عالمی امن بھی خطرے میں پڑے گا۔
یقیناً وزیراعظم عمران خان کی تقریر کو ہر سطح پر سراہا ضرور جائے گا لیکن یہ محض تقریر ہے اور اس میں اٹھائے جانے والے سوالات اور نکات کا حل بہت مشکل ہے۔ لہٰذا تقریر کے نشے میں مدہوش رہنے کے بجائے ہمیں پاکستان کے اندر سیاسی اور معاشی استحکام کی تدبیر کرنی چاہئے کیونکہ ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔