لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں کور کمیٹی کے اجلاس میں فضل الرحمن سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنانے کے اعلان کو سیاسی محاذ پر ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے، فضل الرحمن سے مذاکرات کیلئے کمیٹی کا قیام ایک اہم سیاسی پیش رفت ہے، اس صورتحال میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان بھی سیاسی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بعض وزرا اور ذمہ داران انہیں اور ان کے احتجاجی مارچ کو مذاق قرار دیتے نظر آتے تھے لیکن جوں جوں احتجاجی مارچ کے حوالے سے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی تائید و حمایت کا سلسلہ شروع ہوا توں توں اس عمل پر سنجیدگی پیدا ہوتی گئی۔ حقیقتا دیکھا جائے تو فضل الرحمن کا آزادی مارچ سیاست پر غالب آ گیا۔
دوسری جانب بعض اداروں سے اپنی رپورٹس کے ذریعہ حکومت کو خبردار کرنا شروع کیا کہ اس مارچ کے حوالے سے تیاریوں کو نظر انداز نہ کیا جائے کیونکہ اس حوالے سے چاروں صوبوں میں ایک تحریک کی فضا ہے کہیں زیادہ اور کہیں کم اور اب بڑی سیاسی جماعتوں کی واضح حمایت کے بعد اس حوالے سے سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ لہٰذا مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جائے اور اس حوالے سے مارچ کے ذمہ داران سے ڈائیلاگ شروع کیے جائیں۔ فضل الرحمن مذاکرات کی اس پیشکش کو مسترد کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن پھر بھی اس پیشکش اور اس کیلئے کمیٹی کے قیام کو معمول کا عمل قرار نہیں دیا جا سکتا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت احتجاجی دھرنے پر اس کے قائدین سے مذاکرات میں کتنی سنجیدہ ہے۔ کیا آزادی مارچ سے قبل اس حوالے سے کوئی مثبت حکمت عملی طے ہو پائے گی ؟ اہم بات یہ ہے کہ اس مذاکراتی پیشکش کا ایجنڈا کیا ہوگا ؟۔
وزیراعظم کی مذاکرات پر آمادگی اور اس کیلئے پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی کے قیام کو پہلا مثبت یوٹرن کہا جا سکتا ہے۔ حکومت نے دیر سے سہی مگر بہر حال حکمت سے بھرپور قدم اٹھانے کا اعلان کیا۔ حکومت چونکہ جے یو آئی ( ف) کے خلاف پیشگی کریک ڈاؤن شروع کر چکی ہے اور فضل الرحمن اس کا اشارہ بھی دے چکے ہیں اور پسِ پردہ رابطوں، دھمکیوں اور ترغیب دینے کی بات بھی کر چکے ہیں۔ حکومت نے میڈیا کے فرنٹ پر بھی مولانا کی زبان بندی شروع کر رکھی ہے، لگ یہی رہا ہے کہ حکومت کا کوئی بی پلان ہے یا کوئی غیبی اشارہ جس کے بعد مذاکرات کی بات کی گئی ہے۔ حکومت اب سنجیدہ اس لیے ہوئی کیونکہ عوام معاشی بدحالی کی وجہ سے حکومت کے حق میں کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں۔ اگر عوام میں کوئی مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے حق میں نہیں تو اس کی مخالفت بھی کوئی نہیں کر رہا۔
ایوان میں اکثریت رکھنے والی جماعتیں بھی بظاہر مولانا کے ساتھ کھڑی ہیں، اس لیے حکومت اب مذاکرات کے ذریعے وقت حاصل کرے گی، حکومت کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جب تک معیشت کی کشتی نہیں سنبھلے گی تب تک کوئی بھی سیاسی طوفان اس کو کامیابی کے ساحل سے ہمکنار نہیں ہونے دے گا۔ حکومت کی بقا اور سیاسی استحکام درحقیقت معیشت کی بحالی میں چھپا ہے ۔ وگرنہ آئے روز لشکر اور سیاسی جتھوں کے ذریعے وہ کام ہوتا رہے گا جو کل خود عمران خان صاحب سیاسی قوتوں کے خلاف کرتے آئے ہیں۔