لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے احتجاجی مارچ کی مشروط اجازت کے ساتھ ہی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کے خاتمہ کی اطلاعات ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے مولانا فضل الرحمن اور پرویز خٹک کے اکرم درانی سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد طے پایا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین 25 اکتوبر بروز جمعہ شام 5 بجے اپوزیشن کے ذمہ داران سے ملیں گے۔ اس ملاقات سے قبل اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس کنوینر اکرم درانی نے طلب کیا ہے جس میں حکومتی کمیٹی سے بات چیت بارے حکمت عملی طے ہوگی۔
مذکورہ پیش رفت کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی حد تک حکومت نے پسپائی اختیار کی اور دوسری جانب اپوزیشن نے بھی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیلاگ پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آزادی مارچ کہیں اسلام آباد میں غیر معمولی یا ہنگامی صورتحال کا باعث تو نہیں بنے گا۔ 31 اکتوبر کے احتجاجی مارچ کے مقاصد کیا ہوں گے ؟ اور حکومت اپوزیشن کے دباؤ سے کس حد تک نمٹ سکے گی اور ملک میں جمہوری عمل کو کوئی خطرہ تو نہیں کیونکہ اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ملک کو مسائل کی آگ میں جلتا دیکھ کر ہی دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ نے دھرنا دینے کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اسلام آباد میں ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے کہ جس کی وجہ سے ملک میں جاری جمہوریت اور جمہوری عمل کو کوئی خطرہ لاحق ہو اور انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو احتجاجی دھرنا سے صرف احتجاجی مارچ تک محدود کرنے پرمجبور کیا لیکن حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ حکومت پر احتجاجی مارچ کا خوف سوار ہو چکا ہے۔
گزشتہ 24 گھنٹے میں سیاسی محاذ پر ہونے والی پیش رفت کسی اور صورتحال کا پتہ دے رہی ہے۔ یہ ساری صورتحال دوبارہ غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے کہ آزادی مارچ کی مشروط حکومتی اجازت ملنے کے بعد اب اس کے اصل مقاصد کیا ہوں گے ؟ اور اس کے نتیجے میں کوئی غیر معمولی صورتحال تو نہیں شروع ہو جائیگی؟۔ درحقیقت حکومت کی ہر فرنٹ پر مایوس کن کارکردگی ہر طرح کے سازشی نظریات اور قیاس آرائیوں کو سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے۔ حکومت جب تک مہنگائی اور اس کے نتیجے میں عوامی چیخ و پکار کو اپنا ہدف نہیں بنائے گی تب تک یہ صورتحال کسی نہ کسی شکل میں حکومت کے پاؤں کی زنجیر بنی رہے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کے مبینہ سہولت کاروں نے بھی اسے مشورہ دیا کہ صورتحال کو طاقت سے ڈیل کرنے کی بجائے سیاسی گفت و شنید کا دروازہ کھولا جائے کیونکہ ہوا ابھی حکومت کے حق میں نہیں ہے۔
اگرچہ حکومت مارچ کی اجازت دے چکی مگر وہ اپنے اصل پلان (بی) پر بھی عمل درآمد کر رہی ہے اور اس وقت تک اسلام آباد کا ہر چوک، چوراہا حکومت خود بند کر رہی ہے۔ ہر طرف حکومت کے اپنے کنٹینرز کا ماحول اور لگ یہی رہا ہے کہ حکومت طاقت کا استعمال بھی کرے گی مگر کسی بھی سطح پر شاید اس کی تصدیق نہ کرنے کی پالیسی بھی اپنائے گی۔ اگر صورتحال حکومت کے کنٹرول میں رہی اور آزادی مارچ اسی دن کے ڈوبتے سورج کی طرح غروب ہو گیا تو پھر یہ طوفان ٹل جائیگا۔ اگر مولانا نے اپنی مزاحمت یا بند مٹھی میں چھپے کسی خفیہ آتشیں کا استعمال کیا اور صورتحال دھرنے میں تبدیل ہو گئی تو پھر اسلام آباد میں غیر معمولی حالات ہونگے اور ملک میں جاری سسٹم کی بقا کولاحق خطرات بڑھ جائینگے۔