لاہور: (خاور گھمن) گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان باقر رضا کی طرف سے مقرر کردہ شرح سود تیرا اعشاریہ دو پانچ (13.25) فیصد آجکل اعلیٰ حکومتی ایوانوں میں موضوع بحث بنا ہوئی ہے۔ غیر معمولی شرح سود کے باعث حکومت کو چند سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے، سب سے پہلے اتنے زیادہ شرح سود کی وجہ سے معیشت کومے کی حالت میں جاچکی ہے۔ نجی سیکڑ نے بینکوں سے پیسہ لینا بند کر دیا ہے اور یہی بات سمجھنے کی ہے کہ جب چھوٹا صنعت کار بینک سے قرض نہیں لے گا تو کاروبار کا پہیہ کیسے چلے گا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق بینکوں سے قرض لے کر کاروبار کرنے والے افراد کی تعداد میں 80 فیصد کمی ہوئی ہے، اتنی بڑی تعداد میں کاروباری حضرات کا معیشت سے باہر ہو جانے کا مطلب ہے کہ معیشت حقیقی معنوں میں زوال پذیری کی جانب گامزن ہوچکی ہے جس کے فوری سد باب کی ضرورت ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں سود ادا کرنے کے بعد دنیا کا کوئی کاروبار منافع بخش نہیں رہ سکتا۔ اور یہی پریشانی آجکل حکومتی حلقوں کو ستائے ہوئے ہے۔ اور دوسری پریشانی باقر صاحب ہیں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، اس شیطانی چکر والی شرح سود سے جڑا حکومت کے لئے دوسرا بڑا چیلنج ہاٹ منی کا معاملہ ہے۔ چند کلیدی حکومتی کردار اب دبے لفظوں اپنے خدشات کا اظہار کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ کہیں مسٹر باقر پاکستان میں بھی تو مصری ماڈل متعارف کروانے نہیں جا رہے ؟۔
گورنر سٹیٹ بینک پاکستان میں آنے سے پہلے مصر میں آئی ایم ایف کے کنٹری ڈائریکٹر تھے، بیرون ملک مقیم مصریوں نے بھی شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے پیسہ باہر کے بینکوں میں رکھا اور مختلف وجوہات کی بنا پر بعد میں نکال لیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مصری معیشت کا کیا حشر ہوا۔ یورپ اور امریکہ میں شرح سود نا ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ باہر سے پیسہ پاکستان میں لے کر آ رہے ہیں، ظاہر ہے ریاست پاکستان کی گارنٹی میں اتنا منافع بھلا کون چھوڑتا ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق اڑھائی ارب ڈالر سے زائد کی رقم پاکستان میں آچکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری حکومت ان ٹی بلز کو بھی بیرونی سرمایہ کاری کہہ رہی ہے اور حقیقت یہ کہ ہم اپنے ملکی خسارے کو کم ظاہر کرنے کے لیے بھاری بھرکم سود پر رقم باہر سے لارہے ہیں جبکہ یہ قلیل مدتی نام نہاد بیرونی سرمایہ کار جب چاہیں گے سرمایہ نکال کر لے جائیں گے اور ہماری پہلے سے بیمار معیشت زمین بوس ہوجائے گی۔
نوے کی دہائی کے اواخر میں اسی طرح کی سرمایہ کاری کا مزا ملائشیا، انڈونیشیا اور سنگاپور چکھ چکے ہیں۔ 1998 اور 2008 میں بھی ہماری معیشت کو کچھ اسی قسم کے محرکات کے باعث مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب لوگوں نے اپنے ڈالر پاکستان سے نکالنے شروع کیے۔ چند اہم حکومتی عہدیداروں کے مطابق اس طرح کی سرمایہ کاری اسی طرح بڑھتی رہی اور ملکی ریزرو کا ایک بڑا حصہ بن گئی اور کل کو جب رقم ایک دم سے نکالی گئی تو ملک دیوالیہ پن کی دہلیز پر پہنچ جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں دنیا ٹی وی کو بتایا گیا کہ مذکورہ بالا حقائق کو سامنے ر کھتے ہوئے حکومتی ایوانوں میں اب سنجیدگی سے اس معاملے پر بات شروع ہوگئی ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پاکستان کو دیگر مختلف ذرائع سے کم شرح سود پر طویل مدتی رقم مل سکتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس طرف دھیان نہیں دیا جا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملے پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی اس سے پہلے کے دیر ہو جائے۔ ملکی ڈیٹ ٹو جی ڈٰی پی تناسب پہلے اسی فیصد سے بڑھ چکا ہے۔ زیادہ تر معاشی ماہرین اس بات کو مانتے ہیں کہ اتنی زیادہ شرح سود کے ساتھ ملکی کاروباری سرگرمیوں میں بہتری نہیں لائی جاسکتی بلکہ بہتری کا واحد حل ملکی برآمدات کو بڑھا کر ڈالر کمانا ہے نہ کہ مہنگے قرضے جو اس وقت گورنر باقر رضا صاحب بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر پاکستان کو دلوا رہے ہیں۔
دنیا ٹی وی سے بات کرتے ہوئے فنانس منسٹری کے آفیشل سپوکس پرسن عمر حمید خان کا ماننا تھا کہ اس شرح سود سے نجی شعبے پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کی شرح سود سٹیٹ بینک ملکی مانیٹری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کرتا ہے اور موجودہ حکومت میں اس حوالے سے سٹیٹ بنک پوری طرح سے با اختیار ہے۔ اس مہینے کے آخر میں نئی مانیڑی پالیسی کے حوالے سے فیصلہ ہونا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کے مرکزی بینک کس حد تک شرح سود پر نظر ثانی کرتا ہے۔