ڈیووس: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان سے جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے ملاقات کرکے انھیں اپنے ملک کے دورے کی خصوصی دعوت دی ہے۔
ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات سوئٹزلینڈ کے شہر ڈیووس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کی سائڈ لائن پر ہوئی۔ عمران خان اور اینگلا مرکل نے باہمی دلچسپی کے امور اور دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر بھی بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان خوشگوار ماحول میں غیر رسمی ملاقات ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری جان لے کشمیر کا مسئلہ گھمبیر ہوچکا: وزیراعظم عمران خان
اس سے قبل ایک انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عالمی برادری جان لے کشمیر کا مسئلہ گھمبیر ہو چکا ہے۔ بھارت میں ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ فروغ پا رہی ہے۔ شہریت کا نیا قانون مسلمانوں کیخلاف تعصب پر مبنی ہے۔
امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 اگست سے 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں، عالمی برادری جان لے کہ کشمیر کا مسئلہ گھمبیر ہو چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: صرف امن کے شراکت دار،ٹرمپ کو بتا دیا ایران کیساتھ جنگ تباہ کن ہو گی: وزیراعظم
بھارت کے متنازع شہریت کے قانون پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نازی ازم کے فلسفے پر عمل پیرا ہے، بھارت میں ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ فروغ پا رہی ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی، معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
پاک چین راہداری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سی پیک سے بیرونی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا خاتمہ مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
گزشتہ روز ورلڈ اکنامک فورم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کسی جنگ نہیں بلکہ صرف امن میں شراکت دار بنے گا۔ اگر امریکا اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو سب کے لیے تباہ کن ہوگا، کل میں نے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ ایران کے ساتھ جنگ تباہ کن ہوگی، افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوا، ایران سے بڑا مسئلہ بنے گا۔
عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم ایران امریکا اور ایران سعودی عرب مذاکرات کی کوشش کرا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انتہائی اہم ممالک کے درمیان واقع ہے۔ بد قسمتی سے بھارت کے ساتھ تعلقات ایسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں۔ اس فورم پر بھارت کے ساتھ اپنے معاملات کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں۔ جس وقت ہمارے تعلقات بہتر ہوئے دونوں ملک انتہائی تیزی سے اوپر جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ کا فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں، وزیراعظم عمران خان
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابھی دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں۔ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ ہمسایہ ملک میں امن صرف افغان حکومت اور طالبان مذاکرات سے قائم ہو گا۔ اس میں رکاوٹیں ہیں لیکن یہ واحد حل ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ریاستیں مسائل کا حل جنگ میں کیوں ڈھونڈ رہی ہیں، جنگ شروع کی جاسکتی ہے لیکن اسے ختم کرنا کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ اگر کسی ملک سے شراکت کی تو جنگ کے لیے نہیں امن کے لیے کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں ہو گا کیونکہ امن و استحکام کے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔ معیشت کے لیے امن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب آپ کے معاشرے میں مسلح گروپ ہوں تو یہ ممکن نہیں ہوتا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیا گیا۔ جب میں حکومت میں آیا تو یہ طے کیا کہ ہم کسی جنگ کا حصہ نہیں ہوں گے بلکہ مسائل کے حل کا حصہ ہوں گے۔ افغانستان کے امن عمل میں پاکستان امریکا کو طالبان سے مذاکرات کے لیے تعاون کررہا ہے۔ اگر کسی ملک سے شراکت کی تو جنگ کے لیے نہیں امن کے لیے کریں گے۔
خطاب کے بعد سوال و جواب کے سیشن کے دوران وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ان پر واضح کر دیا کہ اگر ایران کیساتھ جنگ ہوئی تو پورے خطے کے لیے تباہ کن ہو گی۔ اس موقع پر میزبان نے ان سے پوچھا کہ ٹرمپ کا اس پر رد عمل کیا تھا جس پر وزیراعظم نے بتایا کہ وہ خاموش رہے۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کررہے ہیں۔ ہم نے تہران اور ریاض میں کشیدگی کم کرانے میں مدد کی۔ ہم کبھی کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، امن و سلامتی کے بغیر معاشی استحکام ناگزیر ہے۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان صرف امن میں شراکت دار بنے گا۔ ہم ایران امریکا اور ایران سعودی عرب مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ریاستیں مسائل کا حل جنگ میں کیوں ڈھونڈ رہی ہیں، جنگ شروع کی جاسکتی ہے لیکن اسے ختم کرنا کسی کے ہاتھ میں نہیں، نائن الیون کے بعد میں اکیلا ہی امریکی جنگ کے خلاف بول رہا تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف ہمیں بتایا کرتے تھے کہ صرف چند ہفتوں کی بات ہے، اربوں ڈالرز اور لاکھوں جانیں گنوانے کے بعد ہمیں خیال آیا کہ ہم غلطی پر تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب میں نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا اعلان کیا جس کے لیے خیبر پختونخوا کے ہمارے تجربے کو استعمال کیا۔ درخت لگانا ہمارے لیے دو معنوں میں ضروری ہے، ایک تو پاکستان میں ماحول کے لیے ضروری ہے اور دوسری آلودگی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کیونکہ لاہور میں آلودگی بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ اپنی معیشت کو امن و استحکام کے بغیر مستحکم نہیں کرسکتے، پاکستان نے افغان جنگ میں حصہ لیا اور جب روس افغانستان سے چلاگیا تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں معدنیات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جسے کبھی دریافت ہی نہیں کیا گیا، ہمارے پاس سونے، تانبے اور کوئلہ کے بہت بڑے بڑے ذخائر ہیں، پاکستان کے پاس سب سے بہترین زرعی زمین ہے، چین کی مدد سے ہم زرعی پیداوارو کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں سرمایہ کاری لارہےہیں، روزگار کے مواقع پیدا کیے۔ معیشت کی بحالی پر معاشی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، وقت کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں استحکام آرہا ہے۔ حکومت ملی تو ملک تاریخ کے بڑے معاشی بحران کا شکار تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عوامی رد عمل کے باوجود ہم نے سخت فیصلے کیے، اب ہماری سٹاک مارکیٹ اوپر جاری ہے اور معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ خواہش ہے کمزور طبقے کو مواقع فراہم کروں۔ معاشی حالات کی بہتری کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ حکومت ملی تو ملک تاریخی خسارے کا شکار تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کے نوجوان ہیں، 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہم نے اب نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔