لاہور: (روزنامہ دنیا) 2020 میں معیشت میں بہتری آئی ہے، تاہم انتظامی لحاظ سے حکومت کی ناکامی سامنے آرہی ہے، عمران خان کو نظام کو جھنجھوڑنا ہوگا ورنہ گاڑی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔
پروگرام ‘‘دنیا کامران خان کے ساتھ’’ میں میزبان کامران خان نے کہا پاکستان کو ایک ہزار ارب روپے سالانہ خسارہ دینے والے اداروں کی نجکاری کی طرف ایک قدم نہیں بڑھا یاجاسکا۔ خراب نظام کی وجہ سے گندم کا بحران پیدا ہوا۔ ضرورت سے زیادہ گندم ذخیرے میں موجود تھی، وفاق اور صوبوں کی طرف سے طلب اور رسد کا ٹھیک اندازہ نہ لگایا جاسکا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا حکومت میں ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے، حکومت کی معاشی سمت درست نہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین نے کہا 10 سال میں زراعت پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، سابق حکومتوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے یہاں تک پہنچے، ہم زراعت کی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں، نئے آلات برآمد کر رہے ہیں، کھال بنائے جا رہے ہیں، کپاس کی نئی اقسام پر تحقیقات جاری ہیں۔
پروفیسر لمز ڈاکٹر اعجاز نبی نے کہا مہنگائی ہر لحاظ سے معیشت کو متاثر کرتی ہے، عام طبقہ اس لئے زیادہ متاثر ہوتا ہے کہ اس کے پاس اس سے بچاؤ کیلئے اثاثے نہیں ہوتے، 20 سال میں ہم چوتھی مرتبہ اس صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ جب مشرف کی حکومت ختم ہوئی، پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوئی تب بھی یہی ہوا تھا، پھر نواز شریف کی حکومت میں اسی مرحلہ سے گزرنا پڑا، اب 6 سے 7 ماہ معاملات کو ٹھیک کرنے میں لگیں گے۔
دریں اثنا پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ نے کہا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے درمیان ملاقات میں آئی جی کیلئے ایک نام پر اتفاق رائے پایا گیا تھا، جب وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تو کابینہ ارکان نے کہا کوئی نیا نام مانگا جائے، تاہم جب نیا نام مانگا گیا تو سندھ حکومت نے اعتراض کیا۔ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے مجھے مشاورتی عمل کا اختیار دیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ سے رابطہ کیا لیکن مراد علی شاہ نے کہا آئی جی پولیس کے معاملے پر بات نہیں کرونگا۔