لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اور متنازعہ شہریت کے بل پر اپنے اقدام کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں بھارت کے مفادات میں قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان اقدامات پر قائم رہیں گے۔ وہ ان فیصلوں کو بھارت کے بہترین مفادات میں قرار دیتے نظر آ رہے ہیں۔ اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی نریندر مودی سرکار خود اپنی جمہوریت اور ریاست کیلئے بڑا بوجھ بن چکی ہے اور غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاقت اور قوت کے ذریعہ اپنی من مانیاں چاہتی ہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ کون سی ایسی سوچ اور اپروچ ہے جس پر گامزن ہوکر بھارتی وزیراعظم اور ان کی سرکار طاقت اور قوت کے ذریعہ مقبوضہ وادی کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی آواز اور ہندوستان کے اندر شہریت ایکٹ پر پیدا شدہ ردعمل کو دبانے پر مصر ہے۔
حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو عالمی میڈیا سمیت خود داخلی محاذ پر یہ رپورٹ دے رہا ہے کہ بھارت کے اندر سے حکومتی پالیسیوں کے خلاف آوازوں میں شدت آ رہی ہے۔ بھارت کے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر رائے عامہ قائم کرنے والے اداروں نے خود نریندر مودی سرکار کی پالیسیوں، اقدامات پر سوالات اٹھانا شروع کر دئیے ہیں اور وہ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ان پالیسیوں اور اقدامات کا خود حکومت بی جے پی یا نریندر مودی کو کوئی نقصان پہنچے یا نہ پہنچے لیکن خود بھارت کی معیشت پر اس کے مضر اثرات نطر آنا شروع ہو چکے ہیں اور اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو یہ بھارت کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ موجودہ صورتحال میں نریندر مودی سرکار کی پالیسیاں پنڈتوں پر مبنی سیاست اور فکر کے خلاف مزاحمت کے پہلو نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور یہ مزاحمت کسی ایک فریق یا طبقے تک محدود نہیں رہی بلکہ وہاں رہنے والے تمام مذاہب سے جڑے طبقات نہ صرف مزاحمت کر رہے ہیں بلکہ بھارت کی موجودہ حکومت اور آر ایس ایس کی فکر کو بھارت کی داخلی خودمختاری اور سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
سب کے اپنے اپنے تحفظات ہیں اور حکومتی پالیسیوں کے بارے میں ان کے تحفظات ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں جس کے باعث آج کا بھارت بھی انتشار اور خلفشار میں مبتلا نظر آتا ہے اور اس کی بڑی وجہ خود نریندر مودی کی حکومت ہے اور عالمی میڈیا نے بھی اب نریندر مودی کی پالیسیوں اور طرز عمل پر سوالات اٹھانا شروع کر دئیے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور شہریت بل کے تناظر میں کی جانی والی سخت تنقید ظاہر کرتی ہے کہ اس کے اثرات سے علاقائی صورتحال بھی محفوظ نہ رہ پائے گی کیونکہ عالمی انسانی حقوق سے جڑے ادارے بھی بھارت کو اقلیتوں کے لئے ایک غیر محفوظ ملک قرار دے چکے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر مودی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا ہے۔ خود امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کشمیری قیادت کی رہائی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی بندش کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے مودی حکومت کا اقدام اور متنازعہ شہریت بل پر سامنے آنے والا ردعمل ظاہر کر رہا ہے کہ نریندر مودی کسی بوکھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں اور وہ بھارت میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ رجحانات کو ہوا دے رہے ہیں جس کے اثرات ریاست کیلئے بھی خطرناک ہوں گے لہٰذا اس ساری صورتحال کا دنیا کو نوٹس لینا پڑے گا۔
بھارت کوئی چھوٹا ملک نہیں کہ جہاں پیدا شدہ انتہا پسندانہ رجحانات سے صرف نظر برتا جائے۔ اب جبکہ عالمی برداری انسانی حقوق کے ذمہ دار ادارے اور خود بھارت کا دانشور طبقہ بھی نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں پر تحفظات ظاہر کر رہا ہے تو اس رجحان کے آگے بند باندھنا پڑے گا۔ مینڈیٹ کی بنا پر اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا کسی مہذب معاشرہ میں ممکن نہیں۔ اپنے ہی ملک کے اندر متنازعہ علاقہ کے شہریوں کو حق خودارادیت مانگنے کے جرم میں ٹارگٹ کلنگز کی اجازت کسی جمہوریت یا جمہوری معاشرے میں نہیں دی جا سکتی۔ دنیا کی جمہوری تاریخ میں جمہوری حکومتیں اپنے ملک میں استحکام کا ذریعہ بنتی ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت پہلی حکومت ہے جو آئی تو شائننگ انڈیا کے نام پر مگر جب سے وہ برسر اقتدار آئے ہیں انہوں نے یہاں اقلیتوں پر جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے وہ طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے آنے کے بعد سے خود بھارت کی معاشی صورتحال گراوٹ کا شکار ہے ان کے اعدادو شمار نیچے کی جانب جا رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے حوالہ سے یہ بات عالمی میڈیا میں سامنے آ رہی ہے کہ بڑے چینلجز سے دوچار ہونے کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بعض علاقائی ایشوز خصوصاً کشمیر کے حوالہ سے پیدا شدہ صورتحال اور کنٹرول لائن پر خطرات کے باوجود پاکستان کی جانب سے متعدد بار مذاکرات کی پیشکش ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان بیٹھ کر مسائل کا حل چاہتا ہے مگر بھارت مذاکرات سے انکاری ہے اور دو نیو کلیئر پاورز کے درمیان محاذ آرائی اور کشمکش کی یہ صورتحال عالمی امن خصوصاً جنوبی ایشیا کے حوالہ سے پریشان کن ہو سکتی ہے۔ پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اپنی طاقت اور تکبر کے اظہار کیلئے اٹھائے جانے والے دو اقدامات ان کی مضبوطی کے بجائے ان کی کمزوری کے طور پر سامنے آئے ہیں خصوصاً مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کا 5 اگست کے اقدام کے باعث کشمیر جیسے سلگتے ایشو کو عالمی حیثیت ملی ہے اور عالمی طاقتیں اور خصوصاً انسانی حقوق کے ادارے مقبوضہ وادی میں پیدا شدہ صورتحال کو بھارت کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب بھارت میں شہریت کے متنازعہ ایکٹ کے ذریعہ نریندر مودی ہندوستان میں اقلیتوں کو آزادی کو پابند بنانے اور حقوق سلب کرنے پر مصر تھے لیکن مذکورہ ایکٹ کی وجہ سے بھارت کے اندر سے نیا ردعمل سامنے آیا ہے اور بھرپور عوامی و سیاسی ردعمل کے باعث بھارت کی گیارہ ریاستوں نے اس ایکٹ کو اپنے صوبوں میں نافذ کرنے سے معذرت ظاہر کی ہے او ران ریاستوں اور صوبوں کی قیادت نے مذکورہ ایکٹ کو بھارت جیسے سکیولر ملک میں ایک امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ لہٰذا یہ اقدام خود نریندر مودی اور ان کی حکومت کیلئے بڑی کمزوری کے طور پر سامنے آیا ہے اور بھارت کے اندر کے حالات واقعات اور رجحانات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے طرزعمل پر نظرثانی نہ کی تو نریندر مودی کی حکومت کو بڑے سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہندوستان کو نریندر مودی کے اقدامات کی قیمت چکانا ہوگی۔