لاہور: (دنیا نیوز)''لاک ڈاؤن‘‘14 اپریل تک رہنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کم از کم اس تاریخ تک پاکستانیوں کی قلیل تعداد گھروں سے باہر نکلے گی۔ سبب ہمارے علم میں ہے... تاکہ نئے کورونا وائرس، جسے سارس کوو2- کا نام دیا گیا ہے اور جو کووڈ19- نامی مرض پیدا کرتا ہے، کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ لوگ باہر نکلیں گے تو ایک دوسرے کے قریب بھی آئیں گے مثلاً بس اور وین ہو یا میٹرو سروس، بند جگہ بہت سے لوگوں کو سفر کرنا پڑے گا۔ اس دوران تھوڑی سی بے احتیاطی سے کوئی مریض متعدد افراد میں وائرس داخل کر سکتا ہے۔
گھر کی حدود میں بھی ایک فکر رہتی ہے، وائرس کے چار دیواری میں داخلے کی فکر۔ کھانے پینے کا سامان لانے کے لیے باہر جانا پڑ سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کوئی مدد کی تلاش میں آپ کے گھر کا رخ کر لے۔ جسم یا سامان سے چپک کر وائرس ساتھ آ سکتا ہے۔
وائرس کے باہر سے گھر میں آنے کا امکان اگرچہ کم ہوتا ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض تحقیقات مختلف بیرونی سطحوں پر اس وائرس کے زندہ رہنے کی صلاحیت پر ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق وائرس بیرونی سطحوں پر مخصوص وقت کے لیے زندہ یا سرگرم رہتا ہے۔ مثلاً ایک تحقیق کے مطابق نیا کورونا وائرس ہوا میں تین گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ گتے پر 24 گھنٹے تک جبکہ پلاسٹک اور سٹین لس سٹیل پر اس کی زندگی کئی روز طویل ہو سکتی ہے۔
کووڈ19- سے بچاؤ کے لیے اہم ترین دوسروں سے فاصلہ قائم رکھنا ہے، بالخصوص جو کھانس یا چھینک رہے ہوں۔ یہ فاصلہ صرف باہر نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی رکھا جانا چاہیے۔ صابن اور پانی دونوں سے ہاتھوں کو دھونا بھی اس وائرس سے صف اول کے دفاع میں شمار ہوتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ ہاتھ دھونے سے دشمن کو حملے کا موقع نہیں ملتا ۔ نیز آپ جب شاپنگ کر کے آئیں یا کھانا کھانے لگیں تو ہاتھ ضرور دھو لیں۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ صابن سے انسانی جسم سے کورونا وائرس کا خاتمہ ممکن ہے۔ صابن اس نئے وائرس کے خلاف مؤثر ترین ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ دراصل صابن مختلف طرح کے دیگر وائرس کے لیے بھی ہلاکت کا پیغام ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ صابن اس وائرس پر اچھی طرح کام کیوں اور کیسے کرتا ہے۔
وائرس ناقابل یقین حد تک چھوٹے ذروں سے مل کر بنتے ہیں۔ ان کی ایک بیرونی تہ یا جھلی ہوتی ہے جو بہت کمزور ہوتی ہے۔ صابن کے کیمیکلز اسے تحلیل کر دیتے ہیں۔
جس گھڑی کے پرزے کھل جائیں وہ چلا نہیں کرتی۔ بیرونی سطح کے تحلیل ہونے پر وائرس کے حصے اس کے لیے کسی کام کے نہیں رہتے، وہ حملہ آور ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ تین بنیادی چیزوں کے جڑنے سے وائرس کی عمارت مکمل ہوتی ہے اور یہ عمارت مضبوط نہیں ہوتی۔ تاہم صابن اس عمارت کو ڈھائے بغیر بھی اپنا کام کرتا ہے۔
ہماری جلد پر موجود وائرس صرف پانی سے آسانی سے نہیں دھلتے۔ جسم پر میل ان کے چپکنے کو مزید ممکن بناتی ہے۔ اگر ہاتھوں پر موجود وائرس نہ مرے بلکہ دھل جائے تو بھی سمجھیں کہ مصیبت ٹل گئی۔
صابن نہ صرف وائرس کے پروٹین، چکنائی اور آر این اے پر مشتمل ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے بلکہ انسانی جلد اور وائرس کے درمیان جوڑ یا چپکاؤ کو کمزور کر دیتا ہے۔ پھر جب ہم پانی بہاتے ہیں تو وہ بہہ جاتا ہے۔
صابن اور پانی کا محلول ہاتھوں ہی پر مؤثر نہیں، اس سے آپ بیرونی سطح کو بھی صاف اور ڈس انفیکٹ کر سکتے ہیں۔
الکوحل یا ایتھانول پر مبنی پراڈکٹس، جن میں الکوحل کا تناسب زیادہ ہو یعنی 60-80 فیصد ہو، وہ بھی کم و بیش اسی طرح وائرس کو مارتی ہیں جس طرح صابن۔ صابن کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی تھوڑی سی مقدار بھی اچھا کام دکھاتی ہے۔
ایتھانول سے مرنے میں وائرس تھوڑا سا وقت لیتا ہے۔ ایتھنول پر مبنی پراڈکٹ استعمال کرتے وقت اس امر کو یقینی بنائیں کہ یہ ہاتھ کے تمام حصوں تک پہنچے کیونکہ وائرس کو اس میں ڈبونا ضروری ہوتا ہے۔ لاپروائی سے بعض اوقات ہاتھ کے کچھ حصے رہ جاتے ہیں۔ ہاتھ وائرس سے پاک ہوں گے تو ہاتھوں سے گھر کی بیرونی سطح پر وائرس کے پڑنے کا امکان ختم ہو جائے گا۔
غالباً آپ نے ایسی خبریں سن یا پڑھ لی ہوں گی جن کے مطابق وائرس کتنا وقت کس سطح پر زندہ یا متحرک رہتا ہے۔ لیکن یہاں ایک وضاحت ضروری ہے۔ یہ عام طور پر لیبارٹری میں ہونے والے تجربات کے نتائج ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ حقیقی دنیا میں بھی وائرس اتنا ہی عرصہ زندہ رہے۔
بیرونی دنیا میں مختلف عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ پس وائرس کی گھنٹوں یا دنوں تک زندہ رہنے کی استعداد سے پریشان یا خوف زدہ ہو کر آپ ہمہ وقت صفائی ستھرائی ہی میں نہ لگے رہیں۔
البتہ ذہن میں رکھیں کہ جرثوموں، جن میں بیکٹیریا، وائرس، پھپھوندی اور پروٹوزا شامل ہیں، کو ختم کرنے کا ایک طریقہ اچھی طرح صفائی اور ڈِس انفیکشن ہے۔ کورونا وائرس بھی ایک جرثومہ ہے جو آپ کو انفیکٹ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے کم خطرناک بھی ہوتے ہیں جو ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔
گھر میں مختلف بیرونی سطحیں جو وائرس کی زد میں آ سکتی ہیں۔ گھر میں اس وائرس کی زندگی کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے۔ ان میں درجہ حرارت، نمی اور سطح کی نوعیت شامل ہیں۔ یہ مسام دار سطح پر کم اور غیرمسام دار پر زیادہ عرصہ زندہ رہتا ہے۔
گھروں میں باتھ روم اور کچن جرثوموں کی عام پناہ گاہ بنتے ہیں۔ باتھ روم اور کچن میں آپ کو الماری اور دراز کھولنے والی ہتھی (ہینڈل) اور پیشانیوں کو صاف اور ڈِس انفیکٹ کرنا چاہیے۔ کچن میں اپلائنسز کی ہتھیوں اور پیشانیوں کو صاف اور ڈِس انفیکٹ کرنا چاہیے، ان میں ریفریجریٹر، اوون اور ٹوسٹر وغیرہ شامل ہیں۔
گھر کی دیگر اشیا اور جگہوں میں ریموٹ کنٹرول، گیم کنٹرولر، کمپیوٹر کی بورڈ اور ماؤس، موبائل اور لینڈلائن فون، بجلی کے سوئچ اور بورڈ، دروازے اور ان کی ہتھیاں، سیڑھیوں کے اطراف میں پکڑنے کے مقامات شامل ہیں۔
کوشش کریں کہ ایک مقام کی صفائی ایک ہی بار میں ہو جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مقام کی صفائی کے بعد جب آپ دوسرے مقام کی صفائی کریں تو کپڑے پر وائرس آ جائے اور صاف مقام کو پھر خراب کر دے۔
گھر کے جن مقامات کو زیادہ چھوا جاتا ہے یا جن پر زیادہ چلا جاتا ہے، ان پر وائرس کی موجودگی پیش نظر رہنی چاہیے۔
کچن میں برتن اور دوسری چیزیں پڑی ہوتی ہیں۔ بیرونی سطح کو صاف کرنے سے پہلے انہیں ہٹا دینا چاہیے تاکہ کوئی جگہ پاک ہونے سے رہ نہ جائے۔ صفائی اور ڈِس انفیکشن کے لیے ہم چاہیں گے کہ کسی گھریلو کیمیکل ہی سے کام چل جائے۔
سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (امریکا) کے مطابق گھروں میں استعمال ہونے والی بلیچ بھی بیرونی سطح پر کورونا وائرس کے خلاف مؤثر ہے۔ البتہ سینٹر کا کہنا ہے کہ بیرونی سطح پر استعمال کرنے سے قبل بلیچ کو پتلا کر لیں۔ پراڈکٹ پر لکھی گئی ہدایات پر عمل کریں اور یہ بھی یقین کر لیں کہ وہ ایکسپائر نہ ہو۔ سینٹر نے خبردار کیا ہے کہ گھریلو استعمال کی بلیچ کو امونیا یا کسی دوسرے کلینزر کے ساتھ کبھی نہ ملائیں۔ سینٹر کے مطابق بیرونی سطح پر استعمال کے قابل سالوشن بنانے کا طریقہ یہ ہے۔
پانچ کھانے کے چمچ (ایک تہائی کپ) بلیچ ایک گیلن پانی میں ملائیں۔ اسے بیرونی سطح پر اچھی طرح چھڑکیں اور نرم کپڑے سے صاف کریں۔ اس مقصد کے لیے صفائی کے لیے استعمال ہونے والے مخصوص کپڑے یا تولیے کو برتا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ بلیچ بعض سطحوں کو نقصان بھی پہنچاسکتی ہے یا رنگ اڑا سکتی ہے۔
اگر گھر میں کوئی بیمار ہو تو روزانہ ایسی صفائی اور ڈِس انفیکشن کی ضرورت ہو گی۔ بلیچ میں ایک سرگرم عنصر ہوتا ہے، یعنی ایسا عنصر جو جرثوموں پر اثرانداز ہو، یہ سوڈیم ہائیپوکلورائٹ (sodium hypochlorite) ہے۔ یہ وائرس کو مارتا ہے۔
سرجیکل سپرٹ الکوحل؍ ایتھانول پر مبنی ہوتا ہے۔ ماہرین نے دیکھا ہے کہ ایتھانول کورونا وائرس کو صرف 30 سیکنڈ میں مار دیتا ہے۔ کسی کپڑے کو خالص سرجیکل سپرٹ سے گیلا کریں اور سطح پر رگڑیں۔ اس کی تبخیر ہو جائے گی اور آپ کو اسے پونچھنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
بیرونی سطح کو صاف کرنے والے وائپس (wipes) میں جراثیم کش (antiseptic ) عنصر موجود ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ بینزلکونیم کلورائیڈ ہوتا ہے۔ وائپس عموماً جرثوموں کو جسمانی طور پر ہٹاتے ہیں۔ جب آپ وائپس کے ذریعے دباؤ ڈالتے ہیں تو جرثومے ان سے چپک جاتے ہیں۔ اینٹی سیپٹک بیکٹیریا کے خلاف مؤثر ہوتے ہیں۔ یہ کوورنا وائرس کی ان اقسام کے خلاف بھی کام کرتے ہیں جو چوہوں اور کتوں میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ انسانی کوروناوائرس کے خلاف یہ زیادہ مؤثر نہ ہوں۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ہینڈ سینی ٹائزر کے بارے میں محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہینڈ سینی ٹائزر میں اہم عنصر ایتھانول ہے جو سارس- کوو2- وائرس کو مارنا ہے۔ تاہم کسی بھی سینی ٹائز میں اس کا تناسب بہت اہم ہے، اسے 60 سے 80 فیصد ہونا چاہیے۔
ایک بات کا خیال رکھیں کہ جہاں آپ باقاعدگی سے قیام کرتے ہیں وہاں سے ہوا کا گزر رہے۔ انفیکٹ ہونے والا فرد چھینکنے پر ہر بار ہزاروں چھوٹے قطرے یا چھینٹے باہر فضا میں پھینکتا ہے جن میں وائرس ہوتا ہے۔ سارس- کوو2- ہوا میں تین گھنٹے تک متحرک رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کھڑکی کھول دیں گے تو یہ چھینٹے اِدھر اُدھر ہو جائیں گے اور فضا میں وائرس کی مقدار کم یا ختم ہو جائے گی۔
صفائی اور ڈِس انفیکشن میں فرق ہے۔ صفائی کا مطلب نامیاتی مادے، جیسا کہ جرثوموں اور گندگی کو سطح سے جسمانی طور پر ہٹانا ہے۔ ڈِس انفیکشن سے مراد کیمیکلز سے ان جرثوموں کو سطح ہی پر مارنا ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف صفائی اور ڈس انفیکشن دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔
آپ صفائی کس طرح کرتے ہیں یہ اہم ہے۔ صفائی کے دوران آپ نہیں چاہیں گے کہ وائرس دوبارہ اس سطح پر آ جائے۔ بعض ماہرین کپڑے کو انگریزی حرف S‘‘ کی شکل میں رگڑنا تجویز کرتے ہیں۔ اگر اس کپڑے کو دوبارہ استعمال کرنا ہے تو کپڑے دھونے والے اس محلول میں دھوئیں جس میں عموماً کپڑے دھوئے جاتے ہیں۔ گرم پانی میں دھونا زیادہ بہتر ہے۔ پھر اسے اچھی طرح سکھائیں۔ بعض کپڑوں کو گرم پانی سے نہیں دھویا جاتا، ایسے کپڑوں کو دھوپ پر زیادہ دیر سکھانا چاہیے۔
برتنوں کو بھی ڈٹرجنٹ یا صابن اور گرم پانی سے دھوئیں۔ ہم ہاتھوں کو زیادہ گرم پانی سے دھونے کے قابل نہیں ہوتے لیکن کپڑوں اور برتنوں کو زیادہ گرم پانی سے دھویا جا سکتا ہے۔
بیرونی سطح کی صفائی کرنے سے قبل اس سے گرد و غبار ہٹا دینا چاہیے۔ علاوہ ازیں جن سطحوں کو زیادہ چھوا جاتا ہے انہیں روزانہ ڈِس انفیکٹ کریں۔
امریکی ادارے سی ڈی سی کے مطابق تین فیصد ہائیڈروجن پرآکسائیڈ ز وائرس کی مختلف اقسام (Rhinovirus) کو آٹھ منٹوں میں غیرمتحرک (اِن ایکٹی ویٹ) کر دیتی ہے۔ اگر آپ اسے سِنک یا ٹوائلٹ میں ڈالیں تو انہیں 10 سے 15 منٹ تک بھگو کر رکھیں۔ اس دوران وہ اپنا کام کرے گی۔ اس کے بعد اسے برش وغیرہ سے رگڑیں اور پھر پانی بہا دیں۔
کار کے جن حصوں پر زیادہ ہاتھ پڑتے ہیں انہیں ڈِس انفیکٹ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی گھر میں آئے تو گھر کو صاف اور ڈِس انفیکٹ دونوں کریں۔
اگر ڈِس انفیکٹ کرنے والی پراڈکٹ پر لکھا ہے کہ وہ انفلوئزا، آر ایس بی، سارس یا دیگر قسم کے کورونا وائرس کے خلاف مؤثر ہے تو قوی امکان ہے کہ وہ نئے کورونا وائرس کے خلاف بھی کارآمد ہو گی۔
کورونا وائرس کے خلاف لڑائی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن بہت سے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ اس رفتار کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ تمام اقدامات کریں جو اس کے پھیلاؤ کو روکیں۔ اگر گھر اس وائرس سے پاک رہیں گے تو گھر والے بھی محفوظ رہیں گے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گھر کی بیرونی سطح سے ہی وائرس کو نہیں مٹانا بلکہ اپنے جسموں سے بھی ختم کرنا ہے۔ ہاتھ وہ جسمانی عضو ہے جس پر اس کورونا وائرس کے آنے کا سب سے زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اس لیے اسے دھونا بہت اہم ہے۔ اگر متاثرہ ہاتھ کسی بیرونی سطح پر رکھا جائے گا تو وائرس وہاں منتقل ہو جائے گا ۔ یہ سطح گھر میں مقیم کسی بھی فرد کے لیے مسلسل خطرہ بنی رہے گی۔