لاہور: (دنیا نیوز)بہت سے لوگ سماجی دوری کی تیاری کے سلسلے میں خوراک اور دیگر سپلائی کو ذخیرہ کر رہے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ اگر آپ کووڈ19- میں مبتلا ہو گئے ہیں اور آپ نے خود کو قرنطینہ کرنا ہے تو آپ کو کن چیزوں کی ضرورت ہو گی؟
چین میں کووڈ19- کا شکار بننے والے تقریباً 80 فیصد افراد میں کم یا درمیانی شدت کی علامات ظاہر ہوئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گھر پر ہی ہماری بحالی ہو سکتی ہے۔ صحت عامہ کے ماہر اور محقق جینیفر ولیمز کہتے ہیں کووڈ 19- میں مبتلا ہونے کا امکان ہو یا پھر ٹیسٹ مثبت آنے پر کم سے درمیانی شدت کی علامات ہوں تو آپ بعض سہل قدم اٹھا سکتے ہیں۔‘‘
ایکشن پلان بنائیں: ڈاکٹر لیزاڈ کہتی ہیں گھر پر ایک خاص مدت کے قرنطینہ کی تیاری کا مطلب گھریلو پلان آف ایکشن کے ساتھ الگ رہنے کے دورانیے کے لیے اشیائے ضروریہ ذخیرہ کرنا ہے۔‘‘ ان کے مطابق اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس ایمرجنسی رابطے ہوں تاکہ آپ خاندان، دوستوں اور ساتھیوں سے بات کر سکیں اور ضرورت کی چیزیں آپ تک پہنچ سکیں۔دو سے چار ہفتوں کی خوراک، صفائی کا سامان جیسا کہ سینی ٹائزر اور صابن، اور چند دیگر ضروری چیزیں جیسا کہ ٹشو کا انتظام ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق جب آپ خوراک کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو ایسی خوراک جمع کریں جو زیادہ وقت تک خراب نہ ہو اور اس میں غذائیت بھی ہو، مثال کے طور پر چاول، پاستا، دالیں، خشک میوے، ڈبہ بند کھانے کی اشیا اور جمی ہوئی سبزیاں۔‘‘ صحت کے لیے تازہ پھل اور سبزیاں بھی اہم ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں سے بہت سے لازمی غذائی اجزا ملتے ہیں۔ انہیں خراب ہونے سے بچانے کے طریقے بھی ہیں۔ مثلاً ان سے سوپ بنا کر اسے جمایا جا سکتا ہے۔ آپ کھانے کی ایسی اشیا کو گھر ہی پر فریز کر سکتے ہیں۔
اشیا کی فہرست کچھ یوں ہونی چاہیے۔
صاف پانی: اگر آپ کووڈ19- کی لپیٹ میں آ جائیں تو سپلائی کی فہرست میں پانی کو اولیت حاصل ہے۔ایمورے یونیورسٹی سے منسلک اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رائے بیناروچ کے مطابق دیگر کئی وبائی امراض کی طرح کووڈ19- بھی وبائی ہے، اس کا علاج یہی ہے کہ جب جسم بحالی کی کوشش میں مصروف ہو، اسے سکون ملے اور اس کا خیال رکھا جائے۔‘‘ان کے مطابق مطلوبہ مقدار میں پانی پینا اہم ہے، بالخصوص جب بخار زیادہ ہو۔‘‘
ولیمز کا کہنا ہے کہ کووڈ19- کی علامات میں بخار، کھانسی، اسہال اور قے شامل ہیں۔ ان سے جسم میں پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور اگر وہ پوری نہ ہو تو جسم میں مائع کم ہو جاتا ہے۔ اگر بحالی کے عمل میں صحت مندانہ غذائیں نہ کھائی جائیں اور مائع نہ پیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ جسم میں پانی کی صحت مندانہ مقدار سے ناک کی بلغمی جھلی ٹھیک اور مستحکم رہے گی۔ اس سے کھانستے، چھینکتے، یہاں تک کہ سانس لیتے ہوئے ناک میں سوزش یا خراش پیدا نہیں ہوگی۔ نمی کے باعث جھلیاں نہیں پھٹتیں، اس لیے جسم میں مزید بیکٹیریا داخل نہیں ہوتے۔ عام صاف پانی بھی ٹھیک رہتا ہے، اگر آپ بوتل والا پیتے ہیں تو وہ بھی مناسب ہے، البتہ ماہرین کم از کم 15 دنوں کی سپلائی کی موجودگی ضروری بتاتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں پینے کا صاف پانی آتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں سے پانی استعمال کرنا ہے تو اپنا پانی الگ بوتلوں میں جمع کر لیں۔نیشنل اکیڈمیز آف سائنسز، انجینئرنگ اینڈ میڈیسن (امریکا) کے مطابق ساڑھے 15 کپ (3.7 لیٹر) مائع مردوں اور 11.5 کپ (2.7 لیٹر) عورتوں کو روزانہ لینا چاہیے، البتہ بیمار قدرے زیادہ پی سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ خوراک سے ہمیں 20 فیصد کے قریب مائع حاصل ہوتا ہے۔ کبھی کبھار کووڈ19- کے کیسز میں معدے اور انتڑیوں کا شدید ورم (acute gastroenteritis) ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں پانی کی کمی دور کرنے والے سالوشن ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
درد کی دوا: سب سے مفید وہ دوا ہو گی جس سے سر اور جسم کے درد اور بخار کو کم کیا جا سکے۔
ٹشو: وائرس سے آلودہ قطرے یا چھینٹے جو کھانستے، چھینکتے یا تھوکتے ہوئے نکلتے ہیں کووڈ19- کے ایک سے دوسرے فرد میں انتقال کی بنیادی وجہ ہیں۔ اس لیے آپ کے پاس ٹشو پیپر ہونے چاہئیں تاکہ آپ انہیں ضرورت کے وقت استعمال کر سکیں۔
کھانسی کی دوا: زیادہ تر افراد کو شدید کھانسی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو دمہ ہے یا نظام تنفس کی کوئی دوسری بیماری ہے، تو اس کی ادویات کا ہونا بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔ کھانسی کی عام ادویات اکثر مؤثر نہیں رہتیں۔ گلے کے لیے شہد مفید ہے۔ اگر آپ کو دمہ ہے یا نظام تنفس کا کوئی مرض ہے تو اضافی انہیلر اور ادویات آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔ دیگر دیرینہ امراض کے لیے بھی یہی بات درست ہے۔ ذیابیطس، دل کے امراض اور نظام مدافعت کی خرابی سے کووڈ19-کے بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا ان مسائل کی صورت میں ان کی دوائیں آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔ ان ادویات کی، جن کا ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے، چار ہفتوں کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔
زنک: انڈیانا یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر مورٹن ٹاول کے مطابق کورونا وائرس کی علامات کو کم کرنے میں سب سے مقبول مشورہ زنک کا استعمال بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس وبا میں زنک کی مقدار کچھ زیادہ لینے سے فائدہ ہونے کے براہ راست شواہد نہیں ملے لیکن اس میں ردِ وائرس خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق اس سے خلیوں میں کورونا وائرس کی نقول بننے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
وٹامن سی: اس سے قوت مدافعت کے خلیوں کی سرگرمی اچھی ہوتی ہے، بالخصوص اس وقت جب وبا میں انہیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
ادرک اور ہلدی: یہ دونوں سوزش کے خلاف لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بہت اچھی اینٹی آکسیڈنٹ ہیں۔ ہلدی میں وہ تمام اہم کیمیکلز ہیں جو زکام سے لڑتے ہیں اور معدے سے متعلق مسائل میں راحت دیتے ہیں۔
تھرمامیٹر: اگر آپ کو کووڈ19- کا خدشہ ہے اور آپ کو ہلکی پھلکی علامات ہیں، تو آپ کے پاس دن میں دو بار درجہ حرارت چیک کرنے کے لیے تھرمامیٹر ہونا چاہیے۔ نیویارک ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ کا مشورہ ہے کہ علامات ظاہر ہونے کے بعد کم از کم سات دن تک گھر پر الگ رہنا چاہیے اور اس وقت تک جب تک علامات ختم ہوئے اور بخار اترے 72 گھنٹے نہ گزر جائیں۔ اگر علامات شدید ہونے لگیں تو متعلقہ ادارے اور شعبہ طب سے رابطہ کریں۔
صفائی کی اشیا: ان میں دستانے، صابن، ہینڈ سینی ٹائزر، سرفس کلینر، موپس اور سپونج شامل ہیں۔ ان کا مقصد گھر میں کورونا وائرس کے پھیلنے کو روکنا ہے۔
اضافی شیٹس، تولیے اور کپڑے: بیماری کے وقت آپ جس مقام کو چھوتے ہیں، اس پر بھی جراثیم آ جاتے ہیں۔ سخت سطح کو ڈس انفیکٹ کیا جا سکتا ہے لیکن کپڑوں، شیٹس اور تولیوں کے لیے آپ کو انہیں الگ اور طریقے سے رکھنا ہو گا اور گرم پانی سے دھونا ہو گا۔
الگ ہونے کی جگہ: اگر آپ بیمار ہیں تو آپ کو ایک الگ کمرے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے لوگوں سے ہر ممکن حد تک دور رہیں۔ ایسا کمرہ زیادہ بہتر ہے جس کے ساتھ باتھ روم بھی ہو۔
فرسٹ ایڈ کی کٹ: چھوٹے زخموں کے لیے ضروری چیزیں آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔
گیمز، فلمیں، کتابیں اور تفریح: ڈاکٹر جونز کا کہنا ہے کہ سیلف آئسولیشن یا الگ رہنے کے دوران اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا اہم ہے۔ اس لیے مذکورہ اشیا آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔
مقامی طبی عملے یا ادارے اور ایمرجنسی کا نمبر: خیال رہے کہ اس مرض میں بخار اکثر زیادہ رہتا ہے، اس کے علاوہ اگر مریض کی علامات میں شدت ہو یا وہ بے چین ہو تو طب کے ماہر کو طلب کرنا اگلا قدم ہو گا۔
خیال رہے کہ خود کو قرنطینہ کرنے کا اقدام حکومتی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
(ترجمہ و تلخیص: وردہ بلوچ)