احتسابی عمل: خدشات حقیقت بننے لگے، شہباز شریف بڑا ٹارگٹ

Last Updated On 21 May,2020 09:24 am

لاہور: ( تجزیہ: سلمان غنی) حکومتی ذمہ داران کی جانب سے ملک میں احتسابی عمل عیدالفطر کے بعد شروع ہونے کے خدشات اب حقیقت کا روپ دھارتے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا بڑا ٹارگٹ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور انکے مالی معاملات ہیں جبکہ نیب کی جانب سے ایک اور وفاقی وزیر نورالحق قادری کے گرد بھی احتساب کا شکنجہ حرکت میں آتا نظر آ رہا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ عیدالفطر کے بعد اور کچھ ہو نہ ہو لیکن احتساب کا محاذ ضرورگرم ہوگا۔ گرفتاریاں بھی ممکن ہو سکتی ہیں، ملک کے سیاسی منظرنامہ پر تلخیاں اور تناؤ اپنا خوب رنگ جمائے گا، پارلیمنٹ کے اندر بجٹ سیشن کے دوران سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج پر ہوگی اور اس کے اثرات عوامی سطح پر بھی محسوس کئے جا سکیں گے۔

لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ احتساب کا یہ دوسرا مرحلہ کیوں ناگزیر ہے۔ کیا نیب وفاقی وزرا کے خلاف تحقیقاتی عمل سے آگے بڑھ سکے گی اور حکومت کے اتحادیوں کے پہلے سے پیدا شدہ تحفظات جب بڑھ جائیں گے تو پھر حکومت کا مستقبل کیا ہوگا ؟ ایک تاثر یہ عام ہوا ہے کہ موثر احتسابی عمل کے نام پر برسراقتدار آنے والی پی ٹی آئی حکومت میں احتساب نتیجہ خیز ہوتا نظر نہیں آیا، وزیراعظم کی کسی چور اور ڈاکو کو معاف نہ کرنے کی گردان بھی اپنا رنگ نہ جما سکی اور تقریباً 20 ماہ گزرنے کے باوجود ان کے سیاسی مخالفین کو نہ تو عدالتوں سے سزائیں ہوئیں اور نہ ہی لوٹا پیسہ نکلوایا جا سکا۔ احتساب کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کی نوبت کیوں آئی، شہباز شریف کی وطن واپسی کے بعد حکومتی وزرا اور مشیر نیا سیاسی طوفان کیوں کھڑا کر رہے ہیں۔ آخر شہباز شریف کا بخار حکومت پر کیوں سوار ہے ؟۔

واقفان حال یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت جوں جوں مسائل کے گرداب میں پھنستی چلی جا رہی ہے، اپنے اندرونی خوف اور کارکردگی سے توجہ ہٹانے کیلئے اپوزیشن لیڈر کو ٹارگٹ کیا گیا۔ وفاقی وزرا کے خلاف احتساب کا مقصد اس تاثر کو دور کرنا ہے کہ احتسابی عمل جانبدارانہ ہے۔ جب ماضی قریب میں نیب نے حکومتی ذمہ داران پر ہاتھ ڈالنے کا اشارہ دیا تو حکومت نیب اختیارات کی کمی کے حوالے سے اپوزیشن کی طرف مائل نظرآئی، مل بیٹھنے کے پیغامات اور کئی تجاویز بھی سامنے آنے لگیں۔ احتساب کے اس نئے مرحلہ کے آغاز میں نیب کی ساکھ بڑے سوال کے طور پر سامنے آئے گی۔ دوسری جانب ابھی تک حکومت کے اتحادی چودھری صاحبان اور حکومت کے درمیان برف پگھلتی نظر نہیں آ رہی، اگر چودھری صاحبان کے خلاف تحقیقات بند نہ ہوئیں اور انکے تحفظات دور نہ ہوئے تو حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا احتساب کا نیا سلسلہ سیاسی رہنماؤں، وزرا کیساتھ ساتھ خود حکومت کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

5 جون سے قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہونے جا رہا ہے، احتسابی عمل کے اولین اثرات پارلیمنٹ میں ظاہر ہوں گے۔ ایک رائے یہ ہے کہ احتسابی عمل پارلیمنٹ کے اندر کسی بھی غیر متوقع واقعہ یا تبدیلی کے امکانات پر اثرانداز ہونے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ ویسے تو وفاقی وزیر غلام سرور خان کا حالیہ بیان سیاسی حلقوں میں معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے۔ انکی نشاندہی تو حقیقت پسندانہ ہے مگر معاونین خصوصی کا چناؤ تو خود وزیراعظم عمران خان نے کیا ہے۔ کیا ان کا یہ بیان ہضم ہو پائے گا۔
 

Advertisement