وفاقی کابینہ نے سٹیل ملز کی نجکاری کی منظوری دے دی

Last Updated On 09 June,2020 10:23 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے فیصلوں کی توثیق کرتے ہوئے پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی منظوری دیدی۔

 تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہوا، اجلاس کے دوران اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی طرف سے پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی منظوری دیدی ہے۔

 اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے وقت ملکی مفاد کے ساتھ ساتھ مزدروں کے فائدہ کا بھی خیال رکھا جائے۔

فاقی وزارت صنعت و پیداوار نے کہا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو تنخواہوں اور بقایات کی ادائیگی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی جائے گی۔

وزارت صنعت و پیداوار نے پاکستان سٹیل ملز کیس میں اپنا تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سٹیل ملز کو چلانے کے لئے اب تک 5 بیل آوٹ پیکجز دیئے جاچکے ہیں، اس سلسلے میں 2008 سے اب تک 58 ارب روپے دئیے گئے ہیں۔ ملز ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں کی مد میں حکومت 33 کروڑ 50 لاکھ روپے ادا کرتی ہے اور حکومت پاکستان تنخواہوں کی مد میں اب تک 34 ارب روپے جاری کرچکی ہے، ایک ارب 26 کروڑ روپے سے زائد رقم فوت ہوجانے والے ملازمین کے گھر والوں کو دیئے جاچکے ہیں۔

تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو سوئی گیس کے بل کی مد میں 22 ارب روپے ادا کرنے ہیں اور نیشنل بینک آف پاکستان کو قرضہ بھی ابھی تک ادا نہیں کیا گیا۔

وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز نے جون 2015 میں اپنا کمرشل آپریشن بند کیا، ایسا کرتے وقت 14 ہزار 753 ملازمین سے متعلق کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ، 2019 میں ملز ملازمین کی تعداد کم ہوکر 8 ہزار 884 تک رہ گئی، ہے۔ 2018 میں ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے ملز کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کی سفارش کی، نجکاری کیلئے فنانشل ایڈوائزر کی تقرری کی جاچکی ہے، ملازمین کو تنخواہوں اور بقایات کی ادائیگی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی جائے گی، پی ایس ایم انتطامیہ کی جانب سے ادائیگی کا پلان حتمی ہوگا۔

خیال رہے کہ حکومت نے یکمشت ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے کی منظوری کے ساتھ پاکستان سٹیل ملز (پی ایس ایم) کے 9 ہزار 350 ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کی منظوری دی تھی۔

اس سلسلے میں فیصلہ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔

اجلاس کے حوالے سے جاری ہونے والے باضابطہ بیان کے مطابق اجلاس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں، احکامات اور پاکستان سٹیل ملز کے حوالے سے دیگر عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی روشنی میں پاکستان اسٹیل ملز کے ہیومن ریسورس رئیلائزیشن منصوبے کی مکمل اور حتمی منظوری دے دی گئی۔

مذکورہ فیصلہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی 13 مئی کی ہدایت پر وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے ’ہیومن ریسورس رئیلائزیشن‘ کی بنیاد پر نظرِ ثانی شدہ سمری پر کیا گیا۔

اس سے قبل کے منصوبے میں 18 ارب 74 کروڑ روپے کی لاگت میں 8 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

حالیہ فیصلے کے نتیجے میں حکومت سٹیل ملز کے 100 فیصد ملازمین کو فارغ کردے گی جن کی تعداد 9 ہزار 350 ہے، کُل تعداد میں سے صرف 250 ملازمین کو اس منصوبے پر عملدرآمد اور ضروری کام کی انجام دہی کی خاطر 120 روز کے لیے برقرار رکھا جائے گا۔

دوسری جانب ای سی سی کے فیصلے کو کابینہ کے آئندہ اجلاس میں منظوری ملنے کے بعد تمام ملازمین کو برطرفی کے نوٹسز جاری کردیے جائیں گے۔ اس منصوبے کا مالیاتی اثر 19 ارب 65 کروڑ 70 لاکھ روپے کے برابر ہوگا جو گریجویٹی اور پراوڈنٹ فنڈز کی ادائیگی کے لیے یکمشت جاری کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ سٹیل ملز ملازمین کو تنخواہوں کے ادائیگی کی مد میں منظور شدہ ضمنی گرانٹ سے ایک ماہ کی تنخواہ بھی ادا کی جائے گی اس طرح ہر فرد کو اوسطاً 23 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔

اپنی پیش کردہ سمری میں وزارت صنعت و پیداوار نے بتایا کہ سٹیل ملز کی کمزور معاشی صورتحال کے باعث حکومت سال 2013 سے ملازمین کو خالص ماہانہ تنخواہ ادا کررہی ہے۔

چند روز قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کی بحالی کیلئے نجی شراکت قائم کرنا ضروری ہے۔ 2008 سے اب تک مختلف حکومتوں نے سٹیل ملز کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے تقریباً 90 ارب روپے کے بیل آؤٹس اور دیگر تعاون فراہم کیا لیکن وہ نہ ہوسکا۔

حماد اظہر نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو سٹیل ملز کا خسارہ 176 ارب روپے تک ہوچکا تھا اور 2018 میں اس کا قرضہ 210 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکا تھا اور دن بدن اس قرضے پر سود اور نقصانات بھی بڑھ رہے ہیں اور حکومت کو تقریباً 70 کروڑ روپے ماہانا تنخواہوں اور سود کی مد میں ادا کرنا پڑتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ان ساری چیزوں کے پیش نظر کوئی فیصلہ ضروری تھا اور اس مل کے مستقبل کے حوالے سے جائزے کے لیے ماہرین کا پینل بٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ جس طرح پچھلی حکومتیں آئیں، جو اس مل کو بحال کرسکیں نہ اس کی نجکاری کرسکیں، ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہ دے سکی اور قرضے پر قرضہ بڑھاتی چلی گئی جو اب 230 ارب روپے ہوچکا ہے، یہ اس 55 ارب روپے کے علاوہ ہے جو حکومت گزشتہ ساڑھے 5 برس میں اس بند ملز کے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں ادا کرچکی ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ ہم سجھتے ہیں کہ سٹیل ملز خسارے میں گئی پھر بند ہوگئی، اس کی نجکاری نہ کی جاسکی تو اس میں سٹیل ملز کے ملازمین کا کوئی قصور نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 2 مراحل میں سٹیل ملز کے ملازمین کو سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں انہیں ایک ماہ کی تنخواہ سے زائد ریٹائرمنٹ کے واجبات جس میں پروہیبیٹڈ فنڈ، گریجویٹی ادا کی جائے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت پر 20 ارب روپے کا خرچ آئے گا اور اوسطاً فی ملازم کو 23 لاکھ روپے ملیں گے، کئی ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اپنی مدت کے دورانیے اور اسکیل کے لحاظ سے 70 سے 80 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ ایسا کرنے سے حکومت کے ماہانہ 70 کروڑ روپے کی بچت ہوگی، اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ کسی نجی سرمایہ کار یا آپریٹر کو اسٹیل پلانٹ میں لے کر آئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ضروری ہے کہ سٹیل ملز پر جو قرضہ چڑھا ہوا ہے اسے ری اسٹرکچر کیا جائے اور ملازمین کی تنخواہوں کے مسئلے سے بھی نمٹا جائے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 12 مارچ کو سپریم کورٹ نے بہت وضاحت کے ساتھ پاکستان سٹیل ملز کے لیے جو کلمات ادا کیے کہ حکومت کیوں اس بند مل کو تنخواہیں بھی دے رہی ہے اور ملازمین کی پروموشن بھی ہورہی ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2015 سے اب تک حکومت کو تنخواہوں کی مد میں 35 ارب روپے ادا کرچکی ہے اور ماہانہ 34 کروڑ روپے تنخواہوں پر اخراجات ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ سٹیل ملز کی نجکاری میں 15 پارٹیز دلچسپی رکھتی ہیں وہ اس کے بنیادی سٹیل آپریشنز جو 1800 ایکڑ زمین پر مشتمل ہے ان میں دلچسپی رکھتے ہیں، اسے لیز آؤٹ کرنے کا ارادہ ہے اور یہ حصہ پاکستان سٹیل ملز کی ملکیت میں ہی رہے گا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کی بحالی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت آنر اور آپریٹر کے موڈ سے نکل کر آنر اور پالیسی ساز کا کردار ادا کرے اور نجی شراکت قائم کرے تاکہ اس کے نقصانات بھی ختم ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے اس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کی جبکہ انہی کے ادوار میں اٹیل ملز منافع سے خسارے میں گئی، نہ بحال ہوسکی، اس کی نجکاری نہیں ہوسکی اور نہ ہی ملازمین کو وقت پر ادائیگیاں کی گئیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ جب حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہ رہی ہے تو سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کررہی ہیں۔

Advertisement