اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے انکوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں حکومتی اداروں کو شوگر ملز کے خلاف کارروائی سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے سوگر ملز ایسوسی ایشن کی درخواستوں پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا یہ کہنا غلط ہو گا کہ انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لئے بنایا گیا، انکوائری تو حکومت کے اپنے مضبوط اتحادیوں اور دوستوں کے خلاف بھی ہو رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کارروائی تعصب پر مبنی نہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری کمیشن کے کسی ممبر پر کاروباری مفادات یا سیاسی وابستگی کا الزام نہیں، کہا گیا کہ آگے چل کر اس رپورٹ کا غلط استعمال ہوگا، مستقبل کے کسی مفروضے پر آج تحقیقات نہیں روکی جا سکتیں، انکوائری کمیشن نے ایسے ٹی او آرز کے تحت کام کیا کہ شوگر انڈسٹری کے تمام پہلو سامنے آئیں اور معلوم ہو سکے کہ چینی کی کوئی آف دی ریکارڈ خرید و فروخت تو نہیں ؟ چینی کی قیمتیں اوپر جانے سے حکومت نہیں، عوام متاثر ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا شوگر انڈسٹری حکومت کو اس کیس میں فریق مخالف کیوں سمجھتی ہے ؟ حکومت نے معاملہ متعلقہ اداروں کو بھیج دیا ہے، نیب، ایف بی آر، ایس ای سی پی آزادانہ طور پر اس معاملے کو دیکھیں گے۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی انکوائری کمیشن کی سفارشات کے تحت اداروں کو کام جاری رکھنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے حکومتی وزراء اور صوبائی وزراء اعلی کے حوالے سے بھی کمیشن نے لکھا ایسے میں کیسے متعصب ہو سکتا ہے ؟ پتہ نہیں نیب اس پر کارروائی کرتا بھی ہے یا نہیں، نیب تو ایسی رپورٹس یا شکایت کا پہلے جائزہ لیتا ہے، شوگر کمیشن کی انکوائری رپورٹ دراصل موجودہ حکومت اور نیب کا امتحان ہے، مزید حکم امتناع نہیں دیں گے۔
مخدوم علی خان نے جوابی دلائل میں کہا شہزاد اکبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت نے مسابقتی کمیشن کیس کے فیصلے میں کہا ہے کہ کابینہ اپنا اختیار کسی کو نہیں دے سکتی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا وہ حکومت کو ایڈوائس کریں گے کہ اس پر نظرثانی کریں۔