اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور مشیر برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ نوازشریف اورمتحدہ بانی میں زیادہ فرق نہیں، ایک نے لندن رہ کر ، ایک نے ملک کے اندر پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے،مجرم خطاب کرے گا توقانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ مجرم نے کل کونسی نئی بات کرنی ہے۔
اسلام آباد میں مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز کا کہنا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط کی روشنی میں ہمیں ایسے اقدامات کرنے تھے جن سے منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے سلسلے میں قانون سازی کرنی تھی اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ شرط عائد کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں ہمارے حکمران منی لانڈرنگ میں ملوث تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے اسے روکنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی ایسے اقدامات کیے کہ ادارے اس بیماری کو روکیں۔
سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں بڑے عرصے سے تھے اور ان کی حکومتوں میں تھے، ہمارے پاس دو چوائس تھیں کہ اس سے نکل جائیں یا بلیک لسٹ میں چلے جائیں اور ہمیں یہ دیکھنا تھا کہ کیا بہتر ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کی کوشش تھی کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے لیڈرز کے لیے کیا اہم ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی کے سلسلے میں مالی معاملات میں ایسی شقیں درکار تھیں جس سے مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ جیسی چیزوں کا سدباب ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے جائزہ عمل کو بھی سمجھنا ضروری ہے کیونکہ یہ کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ اس میں اقوام عالم کے لوگ ہوتے ہیں اور دوسرے ممالک کے لوگ آپ کے ملک کے قوانین کا دوسرے ممالک سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں اور اسی تناظر میں یہ طے کرتے ہیں کہ آپ کے قوانین اتنے سخت یا نرم ہیں کہ جو چیزیں درکار ہیں اس مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ موثر ہیں یا نہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ ٹرسٹ، وقف، دہشتگردوں کی مالی معاونت سمیت مختلف قوانین میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اصلاحات کا کہا گیا تھا، ہمارا ایف اے ٹی ایف کا سیکریٹریٹ ہے جس میں تمام اداروں کی نمائندگی ہے، سٹیک ہولڈرز اس کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان گرے لسٹ چلا گیا تو اب خطرہ تھا ہم بلیک لسٹ میں چلے جائیں گے تو ایسے میں ایک ذمے دار حکومت اس کا یہ فرض ہے کہ یہ چیزیں نہ ہوں اور پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر دوبارہ وائٹ میں آ جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سفارشات کی روشنی میں بل بنائے گئے تو اپوزیشن سے مذاکرات شروع ہوئے، تو اندرونی کہانی یہ ہے کہ اپوزیشن کے مدنظر سب سے اہم چیز یہ تھی کہ اس پورے پیکج کے بدلے ہمیں کیا ملے گا اور ان کی ایک ہی ڈیمانڈ تھی کہ نیب کے قانون کی 38 شقوں میں 34 ٹانکے لگا دیے جائیں لیکن عوامی دباؤ کی وجہ سے ان کا یہ مطالبہ ختم ہو گیا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ آخر میں اپوزیشن کی سوئی اینٹی منی لانڈرنگ بل پر آ کر اٹک گئی، اینٹی منی لانڈرنگ پہلے آرڈیننس کی صورت میں 2007 میں لاگو ہوا، 2010 میں پارلیمان سے قانون بنا کسے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کہا گیا، جب اس قانون کا جائزہ لیا گیا تو اس میں کافی خامیاں تھیں جس کی نشاندہی کی گئی اور طے کیا گیا کہ ان خامیوں کو دور کر کے قانون کو بہتر کیا جائے گا کیونکہ اس قانون میں کافی خامیوں کی وجہ سے ہی یہ جعلی اکاؤنٹس کے کیسز سامنے آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی بات کو مدنظر رکھ کر حکومت نے ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا، اسے مذاکرات کے لیے اپوزیشن سے شیئر کیا گیا اور ان تمام مذاکرات کے دوران ان کی نیت واضح ہو گئی کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کا ٹی ٹی والا کیس فوراً بند ہو جائے، آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کے جعلی اکاؤنٹس والے کیسز بند ہو جائیں اور اس کے روح رواں شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا کہ اس ڈیل کے چکر میں میرے کیسز بھی بند ہو جائیں۔