آرمی چیف سے زلمے خلیل کی ملاقات، افغان امن عمل میں حالیہ پیشرفت پر غور

Published On 08 October,2020 07:37 pm

راولپنڈی: (دنیا نیوز) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے ملاقات کی جس میں خطے کی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کے درمیان ملاقات جنرل ہیڈ کوارٹر(جی ایچ کیو) میں ہوئی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات کے دوران پاکستان کے لیے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق اور کمانڈر ریزولوٹ سپورٹ مشن جنرل آسٹن بھی موجود تھے۔ ملاقات میں پاک افغان سرحدی انتظامات اور افغان امن عمل میں حالیہ پیش رفت پر غورکیا گیا۔

میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے ٹویٹر پر مزید لکھا گیا کہ دونوں امریکی حکام نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کرادار کو سراہا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان اور افغان حکومت کا معاہدہ، امریکا کا پاکستان کیلئے اقتصادی مراعات کا پلان

دوسری طرف امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغان عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوے کہا ہے کہ کابل حکومت پاکستان کیساتھ سائیڈ ڈیل کر سکتی ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاہدے کے بعد پاکستان کیلئے اقتصادی مراعات دیکھ رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے یہ بات یونیورسٹی آف شکاگو میں ویڈیو لنک سے خطاب میں کی۔ انہوں نے اس اجلاس میں بذریعہ ویڈیو لنک دوحہ سے شرکت کی۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اقدام داخلی امن کے حوالے سے اٹھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر کابل اور طالبان معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کیلئے اقتصادی مراعات دیکھ رہے ہیں۔ زلمے خلیل زاد نے افغان امن عمل کیلئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سفارتکاری اور مدد کا شکریہ ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: رواں برس کرسمس تک افغانستان سے اپنی افواج کا مکمل انخلاء چاہتے ہیں: امریکی صدر

 

ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ افغانستان میں فرائض پر مامور ہمارے دلیر جوانوں کا اپنے گھروں میں ہونا ضروری ہے۔ ہمیں افغانستان میں تھوڑی تعداد میں خدمات انجام دینے والے اپنے بہادر مرد اور خواتین کو کرسمس تک واپس اپنے گھر بلا لینا چاہیے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ ٹویٹ ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل فرینک میکنزی نے اپنے پلان بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ستمبر میں عراق سے اپنی فوج کی تعداد 5200 سے کم کر کے 3000 کر دی جائے گی۔

امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق جنرل فرینک میکنزی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اکتوبر کے بعد تک اپنی آرمی کی تعداد بھی کم کی جائے گی۔ یہ تعداد 8600 سے کم کر کے 4500 کر دی جائے گی۔

یاد رہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے لاس ویگاس میں یونیورسٹی آف نیواڈا میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی پانچ ہزار سے کم فوجی تعینات ہیں جنہیں اگلے برس کے اوائل میں گھٹا کر 2500 سے کم کر دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 20 سال سے لڑی جانیوالی جنگ 20 دن میں ختم نہیں کر سکتے: افغان صدر

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے افغان ہی کسی معاہدے پر پہنچیں گے اور یہ امن معاہدہ ہو گا۔ تاہم یہ ایک طویل اور کٹھن عمل ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لازمی قدم ہے۔

طالبان نے صدر ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا امریکا، طالبان امن معاہدے کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہو گا۔ طالبان کی حکومت امریکا سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے گی۔

یاد رہے کہ رواں برس فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں طالبان کے دہشت گردی کی روک تھام کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج مئی 2021 تک واپس بلانے کا کہا تھا۔

طالبان نے اس کے بدلے مستقل جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ امریکہ نومبر تک افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 4 سے 5 ہزار تک کر لے گا۔ اس سے کم تعداد کرنے کا فیصلہ افغانستان کے حالات پر منحصر ہوگا۔

اگرچہ اب بھی عراق، شام اور افغانستان میں امریکہ کے ہزاروں فوجی موجود ہیں۔ لیکن امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں کا خاتمہ صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔