کراچی: (ویب ڈیسک) پاک بحریہ کی کثیر القومی امن مشق 2021ء فروری میں منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ مشق سال 2007ء سے ہر دو سال بعد منعقد کی جاتی ہے۔
پاک بحریہ کی اس کاوش کا مقصدہے کہ علاقائی اور دیگر بحری افواج کے مابین مشترکہ تعاون کو فروغ دیتے ہوئے متعدد صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ اس مشق میں کئی ممالک کی افواج ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوتی ہیں۔ مختلف ممالک کے جہازوں پر موجود عملہ اور مندوبین پاک بحریہ کے افسران اور جوانوں سے میل جول کرتے ہیں۔
ایک کثیر القومی پلیٹ فارم کی حیثیت سے، امن مختلف بحری افواج کے مابین پیشہ ورانہ تعلقات کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور دیگر اقوام کے سامنے پاکستان کا مثبت امیج بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ مشق بحری سفارتکاری کی بہترین مثال ہے اور پاک بحریہ کے افراد کی پیشہ وارانہ قابلیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے وقار کو بڑھانے کا باعث بھی ہے۔
بحر ہنددنیا کی مصروف ترین تجارتی گزرگا ہ ہونے کی حیثیت سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ تیل کی عالمی ترسیل کا دو تہائی اور بلک کارگو ٹرانزٹ کا ایک تہائی بحر ہند کے راستے سے گزرتا ہے ۔چین کا تقریبا 80 فیصد ، جنوبی کوریا کا 90 فیصد اور جاپان کا 90 فیصد تیل بحر ہند سے گزرتا ہے ۔ مشق امن بحر ہند میں سمندری تحفظ کویقینی بنانے کے مشترکہ نظریے کو فروغ دیتی ہے ۔ اس مشق کو بحر ہند میں تجارت کو بغیر کسی رکاوٹ ، حفاظت اور سیکیورٹی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔
موجودہ مشق امن سیریزکی ساتویں مشق ہے جوپاک بحریہ گذشتہ دو دہائیوںسے لگاتارجاری رکھے ہوئے ہے۔ مشق امن "سمندروں کی آزادی" کے حوالے سے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کی توثیق کرتی ہے۔ اس طرح کی مشقوں سے پاک بحریہ بحر ہندمیںہر طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر بحر ہند کی گزرگاہوں پر تجارت کے مستحکم بہاؤ کو جاری رکھنے میں مدد فراہم ہوگی۔اس مشق سے خطے میں کسی بھی قسم کی امدادی سرگرمی کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی بنانے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔
مشق امن کی توجہ کا مرکز بحری قزاقی ، اسمگلنگ ، دہشت گردی ، قدرتی آفات وغیرہ جیسے غیر روایتی اور غیر روایتی خطرات کے خلاف موثر اقدامات کرنا ہے۔ حالیہ دنوں میں، پاکستان کے مفاد سے وابستہ سمندری علاقے میں سمندری جرائم کی شدت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یو این ایس سی آر کے قائم کردہ اتحاد کے تحت کیے جانے والے آپریشنز، آزاد گشت اور امن جیسی مشقوں کے انعقاد سے ایسے واقعات کی کمی میں پاک بحریہ کا اہم کردار ہے۔
امن مشق کا آغاز ایک بین الاقوامی کانفرنس سے ہوتا ہے جس میں بحری امور کے نامور اسکالرز اور پیشہ ور ماہرین کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور مباحثے منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان مباحثوں میں سمندری تحفظ سے متعلق مختلف چیلنجز اور ان کے اثرات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے حل تلاش کر کے ان کی افادیت کا اندازہ بھی لگا یا جاتا ہے۔ مشق کے سی فیزمیں بحری جہازوں، آبدوزوں اور ہوائی جہازوں سمیت میرین فورسزشریک ہوتی ہیں۔ اس دوران مختلف جہازوں پر بحری مندوبین بھی موجود ہوتے ہیں جو پہلے سے طے شدہ مشقوں کو سرانجام دیتے ہیں۔ اس سے ایک دوسرے کے پیشہ وارانہ طریقہ کار کو بہتر طور پر سمجھنے اور مطابقت پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے۔
گزشتہ سال عالمی منظر نامہ اور بنی نوع انسان کی زندگی میں ایسی تبدیلی لایا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اس سال نے لوگوں کے ذہنوں پر تاریک اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ امریکہ میں روزانہ کی بنیاد پر اموات کی شرح 9/11حملوں میں اموات سے زیادہ تھی۔ دسمبر 2020کے آغاز تک امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ 97 ہزار جب کہ دنیا بھر میں اموات کی تعداد 1.52ملین ریکارڈ ہو چکی تھی۔ دسمبر کے پہلے ہفتے تک ہندوستان میں 1لاکھ 39ہزار 7سو اموات ہوئیں۔ کرہ ارض پر انسانی زندگی کا ایک نیا ڈھنگ شروع ہو چکا ہے اور اس میں تبدیلیاں بھی جاری ہیں۔ویکسین ہویا نہیں ، ناول کورونا وائرس اب موجود رہے گا۔ آنے والے سالوں میں مزید وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ بھی موجودہے ۔ موسمیاتی تبدیلی ، ناقص ترقیاتی پلان اور آزاد سرمایہ دارانہ نظام کی لعنت سے بنی نوع انسان کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کرونانے اُس ماحول کا منظرنامہ پیش کیا جس میں مستقبل کی جنگ لڑی جائے گی۔ کسی بھی فوج کی جنگی صلاحیت اور تیاری اس کی افرادی قوت کے حوصلے اور جسمانی تندرستی سے براہ راست متناسب ہے۔
مستقبل کی فوجی قوتیں جنھیں جنگ کی بدلتی ہوئی ہئیت اور جدید ٹیکنالوجی کے سنگین اثرات سے نبردآزما ہونا ہے انھیں فوجوں میں وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار رہنا ہو گا۔ یہ مشکلات بحری افواج کے لیے زیادہ بڑھ جاتی ہیں ۔جنھیں تنگ جگہوں پر لمبے دورانیے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ترقی کی وجہ سے مشین انسانوں کی جگہ مکمل طور پر لے لے، پھر بھی یہ کہانی نئی نہیں ہے۔ 430قبل مسیح میں پیلو پنیسیائی جنگ کے دوران بھی قدیم یونان ایک تباہ کن طاعون کا شکار ہوا تھا۔ اپنے وقت کے دو طاقتور اتحادیوں، ایتھنز اور اسپارٹاکے مابین ہونے والی لڑائی میں ایتھنز کو طاعون کی وباءکا شدید جھٹکا لگا تھا۔ ایتھنز کی آبادی کا ایک سے دو تہائی کے درمیان آبادی اور ایک ممتاز جنرل بھی ہلاک ہوگئے تھے ۔ مؤخر الذکر کو بھی بیماری سے بچنے کے لئے اتھینیائی سرزمین (اٹیکا) پر اپنا حملہ ترک کرنا پڑاتھا۔
بحرہند آج کل دنیا میں سب سے زیادہ مسابقتی بحری رقبہ ہے رواں صدی میں طاقت کا زبردست مقابلہ یہاں جاری ہے ۔ گذشتہ دہائی میں ہندوستان اور امریکہ کے مابین اسٹریٹجک تعلقات میں زبردست چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے ۔ صرف 4 سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان تین اہم اسٹریٹجک معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں ۔ 2016 میں ہونے والے LEMOAاور 2018 میںہونے والے COMCASAکے بعد تازہ ترین مذاکرات کا نتیجہBECA رہا ۔ بنیادی تبادلہ اور تعاون کا معاہدہ(BECA)کے ذریعے دونوں فورسزکے مابین حساس، درجہ بند معلومات کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ہر فریق کو درجہ بند ڈیٹا تک بلا روک ٹوک رسائی کی سہولت بھی میسر ہوگی۔ یہ معلومات امریکی سیٹلائٹ کے ذریعہ فراہم کی جائیں گی۔ یہ سب نیویگیشن اور فوجی اثاثوں کو نشانہ بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ مختصراًیہ کہ اب خطے میں فوجی وسائل کی نگرانی بھارت اور امریکہ مشترکہ طور پر کریں گے ۔
اس دوران دونوں ممالک کے مابین بحری مفادات کے تعاون میں بھی توسیع ہوئی ہے ۔ فوجی تعلقات میں امریکی اور بھارتی بحریہ کی مشترکہ مشقیں سب سے اہم حصہ ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اس طرح کے تمام مشترکہ اقدامات چین اور پاکستان کے خلاف ہیں ، جو اسٹراٹیجک مفادات کو اکٹھا کرنے کے حتمی اہداف ہیں ۔ حتمی مقصد چین کو بحر ہند میں قدم جمانے سے روکنا اورسی پیک کو غیر فعال کرنا ہے ۔ پاکستان کے اندر ”را“ کی جانب سے کی جانے والی تخریبی سرگرمیوں کے ناقابل تردید ثبوتوں پر مشتمل حالیہ ڈوزئیر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا بدصورت چہرہ ہے جو کہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کررہی ہے ۔ دنیا مودی کے ہندوستان کی اس طرح کی مکروہ سازشوں کونظرانداز نہ کرکے اپنے لیے خطرہ بڑھائے گی۔ بحر ہند اور جنوبی ایشیاءایک خطرناک حالت سے دو چارہیں۔ ایک چھوٹی لیکن مضبوط پاک بحریہ "سمندروں کی آزادی" کو برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے لئے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے ۔مشق امن اس سمت میں ایک انتہائی اہم اقدام ہے۔
تحریر: ثاقب لودھی