کراچی: (ویب ڈیسک) امن مشق کا بنیادی مقصد میری ٹائم سکیورٹی کے ایک ایسے نظریے کو فروغ دینا ہے، جس کی بنیاد اجتماعی کوشش پارٹنرشپ پر رکھی گئی ہو تاکہ تجارتی اور دفاعی مقاصد کے لئے بحرہند ایک پرامن اور محفوظ سمندر بن جائے۔
بحرہند کی اہمیت صرف اس وجہ سے نہیں کہ بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کے بعد یہ دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے بلکہ زمانہ قدیم سے آج تک اسے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک عظیم تجارتی شاہراہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چونکہ یہ تجارت انتہائی منافع بخش تھی، اس لئے اپنے زمانے کی ہر بڑی طاقت نے اسے اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے بحرہند پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی۔
ان طاقتوں میں قدیم مصری ،رومن، عرب اور چینی بھی شامل تھے اور جدید دور میں یورپی طاقتوں یعنی پرتگیز یوںاور ولندیزیوں ،فرانسیسیوں اور انگریزوں نے بھی یہی حکمت عملی اپنائی۔ موجودہ دور میں بحرہندکی معاشی، دفاعی اور سیاسی اہمیت اور بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ اس میں گزرنے والی بحری شاہراہوں پر کھربو ں ڈالر مالیت کے سامان سے لدے ہوئے ہزاروں جہازہر موسم میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک کے زیر استعمال تیل کی 80 فیصد سے زائد مقدار بحرِ ہند کے مختلف حصوں میں واقع تنگ آبی گزرگاہوں مثلا مشرق میں آبنائے ملاکا اور مغرب میں آبنائے ہرمز اور باب المندب کے ذریعے جاپان ،چین ،بھارت ، پاکستان،یورپ اور امریکہ پہنچتی ہے۔
اس بنا پر بحر ہند ایک ایسا سمندر ہے جس سے تقریبا ًدنیا کے تمام ممالک کے مفادات وابستہ ہیں مگر جن ممالک کے لئے اس سے گزرنے والی آبی شاہراہوں کی حفاظت اور کھلے سمندر میں جہازوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت سب سے زیادہ اہم ہے۔ وہ ممالک جن کے ساحلوں کو اس سمندر کا پانی چھوتاہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظرپاکستان کی 80 فیصد سے زیادہ بیرونی تجارت بحرِ ہند اور اس سے ملحقہ بحیرہ عرب کے ذریعے ہوتی ہے۔
پاکستان کے لئے ناصرف اس کی تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحل کی حفاظت بلکہ کھلے سمندروں میں تجارتی جہازوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت ایک انتہائی اہم ٹاسک ہے اور چونکہ بحرہند کی آبی شاہراﺅںکا تحفظ ان سب کے لئے اہم ہے جن کے تجارتی اور معاشی مفادات بحیر ہند سے وابستہ ہیں۔
اسی لیے اس کھلے سمندر خصوصاً جہاںجہازوں کو تنگ آبی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، میں امن اور سلامتی کا قیام کسی ایک ملک کی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی فریضہ ہے۔ اس لئے گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے بحر ہند میں سے گزرنے والی آبی شاہراہوں کی حفاظت ،بحری قزاقی کی بیخ کنی اور دہشت گردوں کی طرف سے ان آبی راستوں کے ذریعے اپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے خلاف کارروائیوں کے لیے منظم اور مربوط کوششیں جاری ہیں۔
2007ء میں امن کے نام سے پاکستان نیوی نے مشترکہ بحری مشقوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان مشقوں میں پاکستان کے علاوہ بحرہند کے خطے اوراس سے باہر دیگر ممالک کی بحری افواج نے بھی حصہ لیا تھا ۔ان مشقوں کا مقصد ان ممالک کی بحری افواج کے مابین تعاون اور مشترکہ کارروائیوں کے دوران استعداد کار میں اضافہ کرنا ہے تاکہ بحرِہند میں امن اور سلامتی کو موثر طور پر قائم کیا جاسکے۔ 2007ء میں منعقد ہونے والی یہ مشترکہ بحری مشقیں اپنی نوعیت کی پہلی مشقیں تھی اور اس میں 28 ملکوں کی بحری افواج نے حصہ لیا تھا۔
اس کی کامیابی سے متاثر ہو کر فیصلہ کیا گیا کہ ہر دو سال بعد ایسی مشقیں منعقد کی جائیں گی۔ اب تک اس نوعیت کی چھ مشقیں منعقد کی جا چکی ہیں اور ساتویں مشق اس سال یعنی 2021ء کی پہلی سہ ماہی میں منعقد کی جائے گی۔ ان مشقوں کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال ہونے والی مشق میں حصہ لینے کے لیے 43 سے زائد ممالک نے اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن کے نام سے شروع کی جانے والی ان مشترکہ بحری مشقوں نے علاقائی سلامتی کے لئے بین الاقوامی سطح پر تعاون کو فروغ دینے میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مشقوں میں ایسے ممالک کے جہاز حصہ لیتے ہیں جو اگرچہ بحر ہند کے خطے سے دور واقع ہیں مگر بحر ہند کے اردگرد واقع ممالک کے ساتھ ان کی اہم تعلقات قائم ہیں۔
اس کے علاوہ بحرہند چونکہ عالمی تیل سپلائی کا نہایت اہم حصہ ہے۔ اس لئے ان مشقوں میں شریک ہوکر یہ ممالک حقیقت میں اپنی قومی معیشت اور سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنا رہے ہیں۔ ان میں ایسے ممالک بھی شامل ہیںمثلاًامریکہ جس نے بحرہند میں بھاری تعداد میں بحری جنگی جہاز جن میں طیارہ بردار جہاز اور آبدوزیں بھی شامل ہیں موجود رکھی ہیں۔
ان جہازوں کا تعلق امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے سے ہے اور سینٹرل کمانڈ کے تحت یہ جہاز مستقل طور پر بحیرہ عرب، خلیج اومان، بحرین اور ڈیگو گارشیا کے مجمع الجزائر میں اپنے اڈوں میں مقیم ہیں۔ ان مشقوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان میں حصہ لینے والے ممالک کی تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور مشقوں میں باقاعدہ شریک ہونے والے ممالک کے علاوہ مبصرین(Observers) کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
بحری مشق امن کے مسلسل انعقاد سے جہاں بحری امن و استحکام کے حصول کے لئے متفقہ سوچ اور عالمی کاوشوں کو یکجا کرنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا ہوگا وہاں پاکستان کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرنے میں یہ مشقیں مدد گار ثابت ہوں گی۔ ان مشقوں میں عالمی افواج کی بھر پور شرکت اس امر کی بھی دلیل ہے کہ دنیا کی جدید، باصلاحیت اور طاقتور ممالک خطے میں قیام امن کے سلسلے میں کی جانے والی پاک بحریہ کی کاوشوں کو ثمر آور مانتے ہیں اور بحری امن و استحکام کے لئے پاک بحریہ کی ان کاوشوں کا بھر پور ساتھ دینے کو تیار ہیں ۔