اسلام آباد ہائیکورٹ:گیلانی کی سینیٹ میں کامیابی کیخلاف درخواست سماعت کیلئےمقرر

Published On 09 March,2021 05:10 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں کامیابی کیخلاف دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر کر لی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ 10 مارچ کو درخواست پر سماعت کریں گے۔ درخواست گزار نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں کامیابی غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دی جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی معطل کیا جائے۔ الیکشن کمیشن سے پوچھا جائے کہ گیلانی کے کاغذات نامزدگی کیسے قبول کئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ درخواست تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی نواز کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ انہوں نے دھاندلی اور پیسوں سے سینیٹ میں کامیابی حاصل کی۔

درخواست میں یوسف رضا گیلانی،علی حیدر گیلانی اور الیکشن کمیشن کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی معطل کیا جائے۔

عدالت عالیہ میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز نے اعتراف کیا وہ الیکشن پر اثر انداز ہوئیں، انہوں نے پارٹی ٹکٹ کی آفر سے سینیٹ انتخابات پر اثر انداز ہونے کا اعتراف کیا جبکہ علی حیدر گیلانی غیر قانونی طور پر ہارس ٹریڈنگ کرتے پائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن: یوسف رضا گیلانی کا نوٹیفکیشن فوری روکنے کی استدعا مسترد

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف نے سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ درخواست نامکمل ہے، علی حیدر گیلانی کی وڈیو میں پیسوں کا ذکر ہے اور نہ ہی ٹکٹ دینے کا، جن 16 لوگوں کی بات ہو رہی، ان کے نام کمیشن کو دیں، مواد کے ساتھ متعلقہ افراد کو فریق بنائیں۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو نوٹیفکیشن روکنے کی درخواست میں ترمیم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تحریک انصاف نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے علی حیدر گیلانی کی ویڈیو کو بنیاد کر درخواست کی گئی تھی۔

قبل ازیں الیکشن کمیشن میں یوسف رضاء گیلانی کی نااہلی سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نمبر گیم میں تحریک انصاف کے امیدوار حفیظ شیخ کو اکثریت حاصل تھی، سینیٹ انتخاب میں پیسے اور پارٹی ٹکٹس کے عوض دھاندلی کی گئی، سینیٹ الیکشن سے ایک اور روز پہلے دھاندلی کا ثبوت ملا، 2 مارچ کو یوسف گیلانی کا بیٹا ویڈیو میں لالچ، رشوت دینے کا کہہ رہا ہے، علی حیدر گیلانی ووٹ نہ دینے اور ووٹ خراب کرنے کا کہہ رہے تھے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف کے وکیل نے ویڈیو کا ٹرانسکرپٹ دیا ہوا ہے، جن لوگوں کو یہ رقم آفر کی گئی انہیں فریق نہیں بنانا چاہیے تھا ؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس سیکشن 9 کے تحت اختیارات ہیں، ان کو فریق نہیں وہ گواہ ہوسکتے ہیں، ویڈیو میں موجود لوگوں کے کم از کم بیان حلفی دئیے جاتے، جن لوگوں کو رقم دینے کی پیشکش ہوئی ان کے بیان حلفی ہوتے۔ رکن الیکشن کمیشن پنجاب نے کہا کہ آج اسی طرح کے کیس میں فیصلہ دے چکے ہیں، تائیدی شہادت لازمی ہونی چاہیے، رشوت دینے اور لینے والا دونوں مرتکب ہیں۔

دوران سماعت علی حیدر گیلانی کی ویڈیو چلائی گئی۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ویڈیو سامنے آنے پر نوٹس بھی لیا، الیکشن کمیشن نے نوٹس لینے پر پریس ریلیز بھی جاری کی۔ جس پر رکن الیکشن کمیشن پنجاب نے کہا کہ ہم نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا، میڈیا پر کہا گیا کہ دوہرا معیار ہے، ڈی جی لاء سے پوچھا تو انہوں نے کہا نوٹس نہیں لیا، ہم نے ایم پی اے عبد السلام کو نوٹس نہیں لیٹر لکھا کہ ویجلینس کمیٹی سے رجوع کریں، ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔

رکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس ویڈیو میں پیسے اور ٹکٹ کا کوئی ذکر نہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ علی حیدر گیلانی، کیپٹن (ر) جمیل اور فہیم خان ایم این ایز کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں، اس ویڈیو کو علی حیدر گیلانی نے خود تسلیم کیا کہ یہ درست ہے۔ رکن الیکشن کمیشن پنجاب نے کہا کہ ان ویڈیوز میں کون ہیں ان کے نام بتائیں اور انہیں فریق بنائیں، کوئی شہادت دیں پھر ہی کاروائی ہوسکتی ہے، الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نااہل بھی کرسکتا ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن پنجاب نے کہا کہ جذبات سے نہیں قانون پر بات کریں، ہر بندہ اپنے کام کا ذمہ دار ہے، ویڈیو میں جس کا نوٹیفکیشن رکوانا ہے اس کا ذکر نہیں، آپ کی پٹیشن اوتھ کمشنر سے تصدیق شدہ نہیں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ کرپشن کو پکڑنے کے لئے ایسی چیزیں ضروری ہیں، الیکشن کمیشن نے یہی اختیارات این اے 75 ڈسکہ میں استعمال کئے، الیکشن کمیشن کرپٹ پریکٹسز روکنے کیلئے بے پناہ اختیارات استعمال کرسکتا ہے۔
 

 

Advertisement