اسلام آباد: (دنیا نیوز) این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے منظم دھاندلی اور فیصلے کی بنیاد بننے والے شواہد مانگ لیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا گیا ؟ الیکشن کمیشن کو منظم دھاندلی کے شواہد ثابت کرنا ہوں گے۔
سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کے معاملے پر سماعت آخری مرحلے میں داخل ہوگئی۔ نون لیگی وکیل سلمان اکرم راجا نے دالائل مکمل جبکہ الیکشن کمیشن نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ پورے حلقے میں ری پول کا فیصلہ برقرار رکھیں نہیں تو متنازعہ پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں رکاوٹیں منصوبے کے تحت ڈالی گئیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ کمیشن نے اپنے فیصلے میں کسی منصوبے کا ذکر نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالروف نے دلائل میں کہا کہ لاپتہ پریذائڈنگ افسران کی لوکیشن حلقے کے باہر کی تھی، رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کمیشن نے فیصلے کے بعد رپورٹ کیوں منگوائی، لوکیشن کی اب کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ سیکورٹی اقدامات اطمینان بخش نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو بڑھ کر اقدامات کرنا چاہیے تھے، 7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی، جبکہ الیکشن 19 فروری کو ہوا، پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیوں انتخابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی ؟ الیکشن کمیشن کو منظم دھاندلی کے شواہد ثابت کرنا ہوں گے، دیکھنا ہوگا کہ کیا پریذائڈنگ افسران کے لاپتہ ہونے سے نتیجہ متاثر ہوا ؟ کیس کی مزید سماعت کل ہو گی۔